1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کا بحران جنگی جرائم کی تحقيقات ميں کيسے مددگار؟

عاصم سليم1 مئی 2016

جرمنی آنے والے مہاجرين کی صفوں ميں شامی خانہ جنگی کے بہت سے متاثرين ہی نہيں بلکہ متعدد مشتبہ افراد بھی شامل ہيں۔ جرمنی ميں آئندہ ہفتے سے شام ميں جنگی جرائم کے مرتکب پائے جانے والوں کے خلاف مقدمے کا آغاز ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ifzv
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi

آريا ايل نامی ايک اکيس سالہ جرمن شہری اور مشتبہ جہادی نے فيس بک پر اپنی ايک تصوير جاری کی جس ميں وہ شام ميں دو قلم کر ديے جانے والے سروں کے ساتھ کھڑا دکھائی ديتا ہے۔ تاہم محکمہ انصاف کی توجہ کا مرکز بننے والا يہ ايک واحد کيس نہيں۔ دفتر استغاثہ کے ايک ترجمان کے مطابق وفاقی دفتر استغاثہ اس وقت شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے ايسے دس کيسز کی چھان بين ميں مصروف ہے جبکہ تيس کے لگ بھگ کيسز سابقہ مشتبہ جہاديوں يا کالعدم تنظيموں کے ساتھ روابط کے بھی ہيں۔

جنگی جرائم کے سلسلے ميں سب سے اہم کيس اکتاليس سالہ شامی شہری ابراہيم ايل ايف کا ہے۔ وہ مشتبہ طور پر شام ميں ايک اسلام پسند باغی گروہ کا سربراہ تھا اور حلب ميں شہريوں کو اغواء کرنے اور ان پر تشدد کرنے ميں ملوث تھا۔ ايک اور مشتبہ شخص سليمان اے ايس ہے۔ اس چوبيس سالہ شامی پر شبہ ہے کہ وہ سن 2013 ميں اقوام متحدہ کے ايک فوجی کے اغواء ميں ملوث تھا۔

وفاقی دفتر استغاثہ اس وقت شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے ايسے دس کيسز کی چھان بين ميں مصروف ہے
وفاقی دفتر استغاثہ اس وقت شام اور عراق سے تعلق رکھنے والے ايسے دس کيسز کی چھان بين ميں مصروف ہےتصویر: Colourbox/O. Mikhaylov

گزشتہ برس کے دوران تقريباً 1.1 ملين تارکين وطن سياسی پناہ کے ليے جرمنی پہنچے، جن ميں قريب چاليس فيصد تعداد ان افراد کی ہے، جو شام اور عراق ميں جاری جنگوں سے فرار ہو کر يہاں پہنچے ہيں۔ جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواست دينے والوں سے يہ پوچھا جاتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی آنکھوں سے کوئی جرم ہوتے ہوئے ديکھا ہے يا وہ کسی جرم ميں ملوث فرد کی شناخت کر سکتے ہيں، تو وہ اس بارے ميں حکام کو آگاہ کريں۔ پناہ کی درخواستوں کا جائزہ لينے والے حکام کے مطابق روزانہ پچيس سے تيس ايسے تجربات کے بارے ميں استغاثہ کو مطلع کيا جاتا ہے، جن کا ذکر درخواست دہندگان نے کيا ہو۔

ہيومن رائٹس واچ سے وابستہ بين الاقوامی انصاف سے متعلق امور کی ماہر گيرالڈين ماتيولی کے بقول مہاجرين کے بحران کے نتيجے ميں استغاثہ کو جرائم کے حوالے سے مخصوص معلومات جمع کرنے کا موقع ملا ہے۔ يہ امر اہم ہے کہ يہ پہلا موقع نہيں کہ جرمنی ميں بيرون ملک ہونے والے جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جائيں۔ سن 1993 ميں يوگوسلاويہ کی جنگ سے فرار ہونے والے پناہ گزينوں نے جرمنی کا رخ کيا تھا اور اس وقت جرمنی ميں پوليس کا ايک خصوصی يونٹ قائم کيا گيا تھا، جس کا کام بلقان ممالک ميں کيے جانے والے جنگی جرائم کی تحقيقات تھيں۔