1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپی يونين اور بلقان ممالک نئے اقدامات پر متفق

عاصم سليم26 اکتوبر 2015

مہاجرين کی آمد کو کنٹرول کرنے اور اس سے منسلک مسائل کے حل کے ليے برسلز ميں طويل مذاکراتی عمل کے بعد يورپی يونين اور بلقان رياستوں کے مابين مستقبل کے لائحہ عمل پر اتفاق ہو گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1GuEA
تصویر: picture-alliance/dpa/Olivier Hoslet

اٹھائيس رکنی يورپی يونين کی جانب سے فيصلہ کيا گيا ہے کہ بلقان رياستوں سے گزرنے والے مہاجرين کے روٹ پر تقريباً ايک لاکھ اسقباليہ مراکز تعمير کيے جائيں گے، جہاں پناہ گزينوں کو عارضی رہائش اور سياسی پناہ کی درخواست کے اندارج سے متعلق معاملات ميں معاونت فراہم کی جائے گی۔

يورپی کميشن کے صدر ژاں کلود ينکر کے مطابق يورپ ميں مہاجرين کی آمد کی رفتار کم کرنے اور اس عمل ميں نظم و ضبط کے ليے پناہ گزينوں کی آمد کے سلسلے کو کنٹرول کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ينکر نے کہا، ’’ايسا نہيں ہو سکتا کہ سن 2015 کے يورپ ميں لوگوں کو کھلے ميدانوں ميں سونے ديا جائے اور انہيں اپنے بل بوتے پر چھوڑ ديا جائے۔‘‘ يورپی کميشن کے صدر نے يہ بات دس يورپی رياستوں کے علاوہ البانيہ، سربيا اور مقدونيہ کے رہنماؤں کے ساتھ برسلز ميں منعقدہ ايک ہنگامی اجلاس کے اختتام پر پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اجلاس ميں کيے جانے والے فيصلوں کی تفصيلات بتاتے ہوئے ينکر نے بتايا کہ ايک لاکھ پناہ گزينوں کے ليے رہائش کا بندوبست اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کی مدد سے کيا جائے گا۔ عارضی رہائش کے مراکز ميں تھکے ہارے پناہ گزينوں کے سياسی پناہ کے اندراج ميں بھی مدد فراہم کی جائے گی۔ قريب پچاس لاکھ مراکز بلقان رياستوں مقدونيہ اور سربيا ميں قائم کيے جائيں گے جب کہ بقيہ يونان ميں ہوں گے۔ انہی مراکز ميں شورش زدہ ممالک سے آنے والے ’مستحق‘ پناہ گزينوں اور معاشی مقاصد کے ليے يورپ آنے والے مہاجرين کی تفريق کی کوشش بھی کہ جائے گی۔ يہ مراکز 160,000 مہاجرين کی مختلف يورپی ممالک منتقلی کے پہلے سے طے شدہ عمل ميں بھی مدد فراہم کريں گے۔

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا کہ پناہ گزينوں کا موجودہ بحران يورپی تاريخ کے سب سے بڑے امتحانوں ميں سے ايک ہے
جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا کہ پناہ گزينوں کا موجودہ بحران يورپی تاريخ کے سب سے بڑے امتحانوں ميں سے ايک ہےتصویر: Reuters/F.Lenoir

ہفتے کے روز رومانيہ، بلغاريہ اور سربيا کی حکومتوں نے سہ فريقی مذاکرات کے بعد يہ تنبيہ کی تھی کہ ان کے ملک ’بفر زون‘ نہيں بنيں گے۔ ان ملکوں نے اپنی سرحديں بند کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ شام، عراق، افغانستان اور شمالی افريقہ کے شورش زدہ ممالک سے اس سال اب تک 670,000 افراد پناہ کے ليے يورپ پہنچ چکے ہيں۔ بحيرہ روم کے ذريعے يورپ پہنچنے کی کوشش کے دوران اس سال قريب تين ہزار افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہيں۔

ہنگری کے جانب سے اپنی سرحديں بند کرنے کے فيصلے کے نتيجے ميں مغربی يورپ پہنچنے کے خواہاں ہزارہا مہاجرين کو متبادل راستہ اختيار کرنا پڑ گيا۔ پناہ گزين بلقان ممالک کی حدود ميں سخت سردی ميں کافی وقت کھلے آسمانوں تلے گزار رہے ہيں۔ اسی سبب نہ صرف پناہ گزينوں بلکہ خطے کی حکومتوں کے مابين بھی کشيدگی بڑھ رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد يورپ کو درپيش پناہ گزينوں کا يہ سب سے بڑا بحران ہے۔

برسلز ميں اجلاس کے بعد ينکر کے ہمراہ پريس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا کہ پناہ گزينوں کا موجودہ بحران يورپی تاريخ کے سب سے بڑے امتحانوں ميں سے ايک ہے۔ ميرکل نے کہا، ’’يورپ کو يہ ثابت کرنا ہو گا کہ يہ بر اعظم اقدار اور يک جہتی کی بنيادوں پر قائم ہے۔‘‘