1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين کو گولی نہيں ماريں گے، بس واپس بھيج ديں گے‘

عاصم سليم24 مارچ 2016

بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ کی بندش کے بعد يہ امکان موجود ہے کہ يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کرنے والے تارکين وطن نئے راستوں کی تلاش ميں ہوں۔ اسی حقيقت کو مد نظر رکھتے ہوئے بلغاريہ کی حکومت حفاطتی تدابير اٹھا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1IIiM
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev

سابقہ سوويت يونين کے دور ميں بلغاريہ کے ايک گاؤں شٹِيٹ (Shtit) کے قريب سرحد پر اونچے اونچے ٹاور اور باڑ نصب تھے، جن کا مقصد کميونزم يا اشتماليت سے فرار ہو کر ترکی ہجرت کرنے والوں کو روکنا تھا۔ اب قريب پچيس برس بعد اسی مقام پر نئی باڑ نصب کر دی گئی ہے اور اس بار اس اقدام کا مقصد تارکين وطن کی ترکی سے يورپ ميں غير قانونی ہجرت کو روکنا ہے۔

اس بارے ميں بات کرتے ہوئے شٹِيٹ کے ايک رہائشی آئيون پيٹکوو کا کہنا ہے، ’’پرانے وقتوں ميں معاملات مختلف تھے۔ اُس وقت مہاجرين نہيں آ جا رہے تھے بلکہ بلغاريہ کے مجرم اور ديگر افراد بھاگنا چاہتے تھے۔‘‘ سرحدی باڑ بلغاريہ کی حکومت کی جانب سے غير قانونی ہجرت کو روکنے کا حصہ ہے۔ مغربی بلقان ممالک کی جانب سے سرحدوں کی بندش کے بعد بلغاريہ يہ نہيں چاہتا کہ يہ روٹ يورپ تک رسائی کے ليے مہاجرين کا نيا راستہ بن جائے۔

بلغاريہ ميں موجود شامی مہاجرين
بلغاريہ ميں موجود شامی مہاجرينتصویر: AFP/Getty Images/N. Doychinov

يورپی يونين کی رکن رياست بلغاريہ نے ترکی سے ملنے والی سرحد پر باڑ لگانے کا کام سن 2013 ميں شروع کيا تھا۔ اب اس عمل ميں کافی تيزی لائی گئی ہے۔ سن 2014 ميں تيس کلوميٹر کے فاصلے تک باڑ لگائی گئی اور آج اس تقريباً تين ميٹر اونچی باڑ کی مجموعی لمبائی پچانوے کلوميٹر ہے۔ سرحد پر نصب باڑ کے ايک طرف بلغاريہ جبکہ دوسری طرف ترکی کے اہلکار ہر وقت پہرہ ديتے ہيں۔ حکام کی کوشش ہے کہ رواں سال جولائی تک ايک سو بتيس اعشاريہ پانچ کلوميٹر طويل باڑ نصب ہو چکی ہو، جو دو سو ساٹھ کلوميٹر طويل سرحد کے نصف حصے کے برابر بنتی ہے۔

بلقان خطے کے ملکوں کی جانب سے سرحديں بند کرنے کے بعد سے اب تک مہاجرين نے بلغاريہ ميں داخل ہونے کی کوئی خاطر خواہ کوشش نہيں کی ہے۔ تاہم صوفيہ حکومت اس ممکنہ پيش رفت کو روکنے کے ليے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ نہ صرف سرحد پر باڑ نصب کر دی گئی ہے بلکہ ترکی، يونان اور مقدونيہ سے ملنے والے بارڈرز سے ملحقہ علاقوں ميں گشت بڑھا دیا گیا ہے اور بليک سی کی نگرانی ميں بھی اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔

پچھلے دنوں بلغاريہ کی پارليمان نے قانونی سازی کے ذريعے فوج کو سرحدوں پر کارروائی کی اجازت دے دی تھی۔ ملکی وزير اعظم بوئيکو بوروسوو کا کہنا ہے کہ مہاجرين کو گولی نہيں ماری جائے گی ليکن انہيں واپسی کا راستہ ضرور دکھا ديا جائے گا۔