1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرين کے ليے ہمدردی رکھيں، شکوک و شبہات نہيں‘

عاصم سليم29 ستمبر 2015

نيو يارک ميں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے ابتدائی روز متعدد سربراہان مملکت نے مہاجرين سے متعلق بحران کے حل کے ليے مالی معاونت ميں اضافے سميت عالمی سطح کے اقدامات پر زور ديا۔

https://p.dw.com/p/1Gf76
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Szenes

امريکی شہر نيو يارک ميں جاری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پہلے دن کئی عالمی ليڈران نے يورپی ممالک پر زور ديا کہ شورش زدہ ملکوں سے يورپ کا رخ کرنے والے مہاجرين کو ہمدردی کے جذبے کے تحت خوش آمديد کہا جائے۔ رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کے اُن ملکوں کے ليے مالی امداد ميں اضافے پر بھی زور ديا، جہاں لاکھوں مہاجرين کيمپوں ميں زندگياں بسر کر رہے ہيں۔

اردن کے فرومانروا شاہ عبداللہ نے کہا کہ بين الاقوامی برادری کو اُن ايجنسيوں کی مدد کرنی چاہيے جو خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے پڑوسی ملکوں ميں مہاجرين کے ليے کام کر رہی ہيں۔ اُنہوں نے کہا، ’’وقت آ گيا ہے کہ بين الاقوامی برادری اِس غير معمولی انسانی بحران سے مشترکہ طور پر نمٹے۔‘‘ شاہ عبداللہ کا مزيد کہنا تھا کہ اِس بحران کا کافی زيادہ بوجھ اُن کے ملک نے اپنے کندھوں پر لے رکھا ہے۔ اردن کے فرمانروا نے اقوام متحدہ کی ايجنسی برائے مہاجرين UNHCR اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے اضافی معاونت کا مطالبہ کرتے ہوئے يہ بھی کہا کہ تاحال اِس سلسلے ميں ملنے والی بين الاقوامی امداد اردن کی طرف سے مہاجرين پر خرچ کی جانے رقم کا محض ايک معمولی سا حصہ ہے۔

رواں برس کے اختتام تک آٹھ لاکھ مہاجرين کی جرمنی آمد متوقع ہے
تصویر: Reuters/D. Ebenbichler

فرانسيسی صدر فرانسوا اولانڈ نے بھی شاہ عبداللہ کے مطالبات دہراتے ہوئے کہا کہ يورپ کی طرف خطرناک سمندری راستے سے مہاجرت کو روکنے کے ليے يورپی ملکوں کو شام کے پڑوسی ملکوں ميں موجود مہاجرين کی بہتری کے ليے مالی امداد بڑھانی چاہيے۔ اولانڈ نے اعلان کيا کہ فرانس کی طرف سے ورلڈ فوڈ پروگرام اور اقوام متحدہ کی ايجنسی برائے مہاجرين کے ليے 100 ملين يورو کی اضافی امداد فراہم کی جائے گی۔

اس موقع پر اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون نے مہاجرين کے ليے اپنے دروازے کھولنے والے يورپی ممالک کو سراہا تاہم اُن کا يہ بھی کہنا تھا کہ مجموعی طور پر يورپی خطے کو مزيد اقدامات کرنے چاہییں۔ بان کی مون نے يورپی ممالک کو ياد دلايا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران يورپی مہاجرين بھی اِسی طرح مدد کی تلاش ميں تھے۔ اُنہوں نے زور دے کر کہا، ’’مہاجرين کو ہمدردی کے جذبے کے تحت خوش آمديد کہيں، اُن پر شک نہ کريں۔‘‘ يورپی ملک ہنگری کی جانب سے مہاجرين کی آمد روکنے کے ليے اپنی سرحد پر باڑ لگانے کے فيصلے پر تنقيد کرتے ہوئے سيکرٹری جنرل نے کہا، ’’ہميں اکيسويں صدی ميں امتياری سلوک کو روکنا چاہيے، ہميں ديواريں يا باڑيں نہيں لگانی چاہييں۔‘‘

جنرل اسمبلی ميں برازيل کی صدر ڈلما روسيف نے کہا کہ اُن کا ملک مہاجرين کو خوش آمديد کہتا ہے۔ روسيف کے بقول برازيل ايک کثير النسلی ملک ہے اور وہاں لوگ اختلافات کے باوجود ايک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہيں۔

ايک اور جنوبی امريکی ملک کيوبا کے صدر راؤل کاسترو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ميں پہلی مرتبہ تقرير کرتے ہوئے مہاجرين سے متعلق بحران کے تناظر ميں يورپی ملکوں پر تنقيد کی اور کہا کہ يہ بحران مشرق وسطیٰ اور شمالی افريقی ممالک ميں مغربی مداخلت کا نتيجہ ہے۔