1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرین سماجی انضمام کے لیے کیا بے لباس ساحلوں پر جائیں؟‘

شمشیر حیدر کے این اے/ ای پی ڈی
21 ستمبر 2017

جرمن شہر ماگڈے برگ کے کیتھولک بشپ نے جرمنی میں مہاجرین کے سماجی انضمام کے مطالبات پر تنقید کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ مہاجرین جرمن معاشرے سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کیا مسیحی اقدار اپنائیں اور عریاں ساحلوں پر جائیں؟

https://p.dw.com/p/2kSdR
Strandbad Wannsee Berlin FKK Freie Körperkultur
تصویر: picture-alliance/dpa/B.Pedersen

جرمنی کی قریب سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ملک میں نئے آنے والے مہاجرین سے سماجی انضمام اور ملکی اقدار سے مطابقت پیدا کرنے کے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔ جرمن شہر ماگڈے برگ کے کیتھولک بشپ گیرہارڈ فائیگے نے ایسے مطالبات پر شدید تنقید کی ہے۔

جرمنی میں مقیم مہاجر خواتین کو درپیش مشکلات

ڈنمارک: اس سال مزید مہاجرین کی گنجائش نہیں

بدھ بیس ستمبر کی شام اپنے ایک خطاب میں بشپ فائیگے نے ایسے مطالبات کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے پوچھا کہ مہاجرین دراصل ’کس طرح مطابقت پیدا کریں؟‘۔ ان کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کیا مسیحی اقدار اپنائیں یا لادین طرز زندگی؟ کیا وہ ہاٹ ڈاگ (ساسیج) اور اسٹیکس کھائیں یا پھر سبزی خور بن جائیں؟ کیا وہ باویریا کی لوک کہانیاں سنیں یا شمالی جرمنی کے ان ساحلوں پر جائیں جہاں لوگ لباس کے بغیر جاتے ہیں؟‘‘

جرمنی کے اس کیتھولک بشپ کا کہنا تھا کہ انضمام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ اپنی شناخت ختم کر کے میزبان ملک کے باسیوں کا طرز زندگی مکمل طور پر اپنا لیں اور نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ مقامی معاشرے کے متوازی ایک اور معاشرہ قائم کر لیں۔

جرمنی: افغان مہاجرین کی اجتماعی ملک بدری پھر سے شروع

جرمن کیتھولک مسیحیوں کے اس سرکردہ مذہبی رہنما کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی آنے والے مہاجرین کو ملک میں رہنے کے لیے ’بنیادی جرمن آئین اور قوانین کی پاسداری بہرصورت‘ کرنا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جرمنی میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جرمن اقدار کی بنیاد مسیحیت پر مبنی ہے، انہیں بھی اپنی بات پر پوری طرح قائم رہتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ مسیحی اقدار کے مطابق بھی ہر ملک اور ہر مذہب کے افراد کو قبول کیا جاتا ہے۔

بشپ گیرہارڈ فائیگے نے اپنا یہ خطاب سماجی ادارے ’ریفیوجیئم‘ کے قیام کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر کیا۔ یہ تنظیم تنہا اور کم عمر مہاجرین کی سرپرستی کا کام کرتی ہے اور اب تک انچاس مختلف ممالک میں 393 کم عمر مہاجرین کے لیے کم از کم تین برس تک کے عرصے کے لیے سرپرست مہیا کیے جا چکے ہیں۔

جرمن زبان بھی سیکھیے اور ہنر بھی، مہاجرین کے لیے خصوصی کورسز

جرمنی میں کم پڑھے لکھے مہاجرین کے لیے مشکلات زیادہ