1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین مخالف خاتون کا مہاجر سے عشق اور اب ممکنہ سزائے قید

شمشیر حیدر AFP
10 جون 2017

اس فرانسیسی خاتون نے مہاجر مخالف سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کو ووٹ دیا لیکن پھر اسے ایک ایرانی مہاجر سے عشق ہو گیا، جس کی مدد کرنے کے جرم میں اب اسے ممکنہ طور پر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2eSWJ
Symbolbild Paar Pärchen Seitensprung
تصویر: Colourbox/Pressmaster

چوالیس سالہ اوغے نامی فرانسیسی خاتون کو غیر قانونی طور پر ایک غیر ملکی مہاجر کی مدد کرنے کے مقدمے کا سامنا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت ستائیس جون کو ہو رہی ہے اور جرم ثابت ہونے پر اوغے کو دس برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

فرانسیسی شہر کیلے کی رہائشی اوغے ہمیشہ مہاجر دوست انسان نہیں تھی۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کی مہاجرین مخالف سیاسی جماعت نیشنل فرنٹ کی نہ صرف ووٹ دینے تک حمایتی تھی بلکہ ان کے اشتہارات بھی بانٹتی پھرتی تھی۔ کیلے شہر کی ایک وجہ شہرت بھی وہاں قائم ’جنگل کیمپ‘ اور وہاں سے چینل ٹنل کے ذریعے غیر قانونی طور پر برطانیہ جانے کی کوشش کرنے والے مہاجرین بھی ہیں۔

اٹلی میں مہاجرین مخالف تحریک کیسے اور کیوں زور پکڑ رہی ہے؟

پناہ کے یورپی قوانین، نیا لائحہ عمل

اوغے کا پہلا شوہر بھی فرانسیسی بارڈر پولیس کا ایک ایسا ملازم تھا، جو اسی کی طرح نیشنل فرنٹ کا حامی اور مہاجرین مخالف سوچ رکھتا تھا، دونوں کی شادی بیس برس تک قائم رہی۔

اس کی زندگی اور سوچ میں تبدیلی تب آئی، جب اس نے جنگل کیمپ میں مقیم ایک سوڈانی مہاجر کو لفٹ دی۔ جب اوغے نے اس بدنام زمانہ مہاجر کیمپ کے حالات دیکھے تو اس نے رضاکارانہ طور پر مہاجرین کی مدد کرنا شروع کر دی۔ یہیں پہلی مرتبہ اس کی ملاقات مختار سے ہوئی۔

فرانسیسی حکام نے کیمپ خالی کرانے کا فیصلہ کر رکھا تھا اور مختار نے احتجاجاﹰ اپنے ہونٹ سی رکھے تھے۔ اوغے کو مختار سے پہلی نظر ہی میں عشق ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ مختار کو فرانسیسی زبان نہیں آتی تھی، انگریزی سے بھی کم واقفیت تھی، لیکن ’ہماری محبت کی کہانی گوگل ٹرانسلیٹر کی مدد سے شروع ہوئی‘۔

کچھ دن بعد وہاں کام کرنے والے رضاکاروں نے اوغے سے درخواست کی کہ وہ عارضی طور پر چند دنوں کے لیے مختار کو اپنے ہاں رکھ لے، جس کے بعد اسے غیر قانونی طور پر ایک گاڑی میں سوار کر کے برطانیہ بھیج دیا جائے گا۔

یہ منصوبہ تو کامیاب نہ ہوا لیکن مختار ایک ماہ تک اوغے کے ہاں مقیم رہا۔ مختار انگلینڈ جانے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تھا اور اس کی درخواست پر اوغے نے اسے ایک ہزار یورو مالیت کی ایک چھوٹی کشتی خرید دی تاکہ وہ اس کی مدد سے برطانیہ روانہ ہو سکے۔

اوغے کہتی ہے، ’’اگر میں اس کی مدد نہ کرتی تو وہ کوئی اور راستہ اختیار کر لیتا۔ میں اسے رکنے پر قائل نہیں کر سکتی تھی۔‘‘

گیارہ جون سن 2016 کی صبح چار بجے مختار اور اس کے دوست کشتی میں سوار ہو کر برطانیہ جانے کے لیے روانہ ہوئے تو اسے الوداع کہنے کے لیے اوغے بھی وہاں موجود تھی۔

دو ماہ بعد فرانسیسی پولیس نے اس جرم میں اسے گرفتار کر لیا۔ اوغے نے انہیں ساری حقیقت بتا دی، ’کیوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا‘۔

مختار کامیابی سے برطانیہ پہنچ گیا تھا، جہاں اب وہ شیفیلڈ میں رہائش پذیر ہے اور اسے ورک پرمٹ بھی مل چکا ہے۔ اوغے اسے ملنے ہر دوسرے ہفتے وہاں جاتی ہے اور اس نے اپنی آپ بیتی پر مبنی ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ اوغے لکھتی ہے، ’’مختار نے مجھے دوبارہ پیار کے معنی سکھائے، جو میں بھول چکی تھی لیکن اس سے بڑھ کر اس نے مجھے سچ کا مطلب سکھایا۔‘‘

لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ سماعت کے لیے پیش ہو گی تو عدالت اس کے سچ کو کس انداز سے دیکھتی ہے۔

پاکستانی تارکین وطن کی واپسی، یورپی یونین کی مشترکہ کارروائی