1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا بحران، یورپی شہروں کی مزید رقم حاصل کرنے کی کوشش

عدنان اسحاق6 اپریل 2016

مہاجرین کے بحران کے تناظر میں مختلف یورپی شہر روایت کے برخلاف، قومی سطح پر پالیسی کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کوشش کا مقصد زیادہ سے زیادہ وسائل کا حصول ہے تاکہ مہاجرین کو بہتر سہولیات پہنچائی جا سکیں۔

https://p.dw.com/p/1IQVK
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini

یورو سٹیز کے ایک سروے کے مطابق یورپ کے مختلف ممالک میں ضلعی اور مقامی انتظامیہ قانونی طور پر مکمل اختیار نہ ہونے اور مہاجرین کے سیلاب کو سنبھالنے کے حوالے سے وسائل کی کمی کی وجہ سے انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریا کی بات کی جائے تو ویانا سوشل فنڈ کو شہری انتظامیہ مالی تعاون فراہم کرتی ہے اور اس شہر نے پناہ گزینوں کے اندارج اور ان کے لیے شناختی کارڈ کا نظام متعارف کرایا ہے۔ اسی طرح جرمن شہر ڈسلڈورف کی مقامی انتظامیہ نے پناہ گزینوں کے لیے ایک کمشنر تعینات کیا ہے، جس کی ذمہ داری پناہ گزینوں کے مراکز کی صورتحال اور دیگر سہولیات کی نگرانی کرنا ہے۔

اس جائزے کے مطابق گزشتہ برس کے دوران یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والے افراد کی تعداد دس لاکھ سے زائد تھی،’’ بہت سے شہروں نے پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہنے کے انتظامات بھی خود ہی کیے تھے۔‘‘ اس دوران شہریوں نے ان کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس سلسلے میں ایتھنز، ویانا اورمیونخ مہاجرین کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شہر ہیں۔ ایتھنز میں جنوری 2014ء سے دسمبر 2015ء تک پانچ لاکھ افراد نے سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ میونخ میں اسی ہزار جبکہ اس دوران برلن اور ویانا میں انہتر انہتر ہزار افراد نے پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

Deutschland Flüchtlinge bekommen Wohnung in Düsseldorf
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska

اس جائزہ کے نتائج پر رپورٹ مرتب کرنے والے تھومس یزیکوئل نے بتایا، ’’مثال کے طور پر ایتھنز حکام نے یورپی کمیشن سے مزید امداد لینے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین سے رابطہ کیا۔‘‘ ان کے بقول ایسے شہروں کی انتظامیہ کے ساتھ مالی تعاون کرنے سے اُن مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی، جو بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس جائزہ کے مطابق بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد اور وفاقی حکومتوں کے سست ردعمل نے ضلعی اور شہری انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا ہے۔