1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی ڈیل ختم کر سکتے ہیں، ترک وزیرخارجہ کی دھمکی

عاطف بلوچ، روئٹرز
16 مارچ 2017

یورپی یونین اور ترکی کے درمیان سفارتی کشیدگی میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے اور اسی تناظر میں ترک وزیرخارجہ مولود چاؤش اولو نے دھمکی دی ہے کہ انقرہ حکومت گزشتہ برس مہاجرین سے متعلق طے شدہ ڈیل کو معطل بھی کر سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZH8x
Frankreich Türkischer Außenminister Cavusoglu in Metz
تصویر: Reuters/V. Kessler

ترکی اور یورپی ممالک جرمنی اور ہالینڈ کے درمیان حالیہ کچھ دنوں میں سفارتی کشیدگی میں بے انتہا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایک برس قبل یورپی یونین اور انقرہ حکومت کے درمیان طے پانے والی ڈیل میں ترکی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے مہاجرین کو بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے سے روکے گا۔ تاہم اب ترکی نے دھمکی دی ہے کہ وہ یہ معاہدہ معطل بھی کر سکتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت غیرقانونی طور پر یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کو دوبارہ ترکی بھیجنے اور ان کی جگہ ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو یورپی یونین میں بسانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ تاہم اب ترک وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس معاہدے پر نظرثانی کر رہا ہے۔

اس بیان کے بعد ترکی اور یورپی یونین کے ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔

Türkei Proteste in Istanbul gegen die Niederlande
ترکی اور یورپی یونین کے درمیان کشیدگی میں شدید اضافہ ہوا ہےتصویر: picture-alliance/abaca/AA/S.Z. Fazlioglu

ترکی اور یورپی ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کی وجہ یہ بات بنی ہے کہ جرمنی اور ہالینڈ نے اپنے اپنے ہاں ترک سیاست دانوں کو ترک صدارتی ریفرنڈم سے متعلقہ ریلیوں سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ترکی میں صدارتی نظام رائج کیے جانے سے متعلق ایک عوامی ریفرنڈم منعقد کرایا جا رہا ہے، جب کہ جرمنی اور ہالینڈ میں ترک باشندوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، جو ترکی میں بھی ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ انہی ووٹروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے ترک صدر ایردوآن کی حکمران جماعت کے سیاست دان جرمنی اور ہالینڈ میں ترک باشندوں سے خطابات کرنا چاہتے تھے، تاہم انہیں اس کی اجازت نہ دی گئی۔

24 ٹی وی نامی چینل کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں چاؤش اولو نے کہا کہ اس معاہدے کی ایک شق شینگن ممالک کے لیے ترک شہریوں کے ویزا فری سفر سے متعلق بھی تھی، جس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور ایسی صورت میں ترکی اس ڈیل کو ختم کر سکتا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سخت حکومتی کریک ڈاؤن کے تناظر میں یورپی یونین نے ویزا فری سفر کی اجازت سے قبل انقرہ حکومت کو چند سیاسی اور قانونی اصلاحات کی شرائط پیش کی تھیں، تاہم ترکی نے انہیں مسترد کر دیا تھا۔