1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے لیے روزگار: جرمنی اور مہاجرین دونوں کی ضرورت

شمشیر حیدر20 جنوری 2016

جرمنی میں ہزاروں ملازمتیں خالی پڑی ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں آنے والے تارکین وطن ملازمت حاصل کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ لیکن ملازمت کے لیے مطلوبہ قابلیت کی کمی اور جرمن زبان سے ناواقفیت ان کی راہ میں حائل ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Hh6g
Deutschland Facharbeiter Flüchtling Jihad Maai
تصویر: DW/C. Röder

ماہرین اقتصادیات ایک عرصے سے اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کی جرمن عوام کی اکثریت بوڑھی ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کی اس بڑی معیشت کو طویل مدتی معاشی استحکام کے لیے نوجوان اور ہنر مند لیبر کی شدید ضرورت ہے۔

جرمنی میں لاکھوں کی تعداد میں تارکین وطن کی آمد سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ مہاجرین کو ملازمت فراہم کر کے ہزاروں خالی اسامیوں کو پُر کیا جا سکے گا۔ لیکن مطلوبہ قابلیت کی کمی اور جرمن زبان نہ جاننے کے باعث ابھی تک نہ تو مہاجرین ایسے مواقع سے مستفید ہو پائے ہیں اور نہ ہی جرمن انڈسٹری جرمنی آنے والے افراد کی صلاحیتوں سے مستفید ہو پائی ہے۔

آئی ایچ کے چیمبر آف کامرس ایسوسی ایشن برلن میں فنی تربیت کے شعبے کی سربراہ کے طور پر تعینات مائیکے الحبش کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کی لاعلمی بھی ایک مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے تارکین وطن جرمنی میں بیکریوں سے لے ملٹی نیشنل کمپنیوں تک تقریباﹰ ہر ادارے میں فراہم کردہ تربیتی پروگراموں سے ناواقف ہیں۔

چیمبر آف کامرس اور جرمنی کی وفاقی لیبر ایجنسی ان دنوں کوشاں ہیں کہ نوجوان پناہ گزینوں کو بتایا جائے کہ جرمن لیبر مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے تربیت کا حصول کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔

لیبر ایجنسی کے ترجمان یُرگن وُرسٹ ہورن کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی ترجیحات مختلف ہیں۔ وُرسٹ ہورن کے مطابق، ’’زیادہ تر نوجوان مہاجرین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد پیسے کما کر اپنے وطن میں موجود اہل خانہ کو بھیجیں۔‘‘ اس کے علاوہ مہاجرین نے جرمنی پہنچنے کے لیے اسمگلروں کو رقم ادا کرنے کے لیے قرض بھی لے رکھا ہوتا ہے۔

وُرسٹ ہورن کے مطابق اسی وجہ سے زیادہ تر تارکین وطن کی ترجیح ہوتی ہے کہ وہ تربیت حاصل کرنے کی بجائے چھوٹی موٹی نوکری کریں تاکہ وہ فوری طور پر کچھ رقم کما سکیں۔

لیکن روزگار کے لیے مشورے فراہم کرنے والی ایک فرم کے سربراہ کونراڈ سکیروش کا کہنا ہے کہ صرف پانچ تا دس فیصد تارکین وطن ہی ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس جرمنی میں کام کرنے کے لیے تربیت کا مطلوبہ معیار موجود ہوتا ہے۔

Symbolbild Daimler-Boss lässt in Flüchtlingszentren nach Arbeitskräften suchen
مرسڈیز کار بنانے والی کمپنی کے علاوہ کئی دیگر جرمن صنعتوں نے بھی تارکین وطن کے لیے انٹرن شپ پروگرام شروع کر دیے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/B. Weißbrod

زیادہ عمر کے تارکین وطن کے لیے تو صورت حال اور بھی پیچیدہ ہے۔ کام جاننے اور اپنے شعبوں میں برسوں کا تجربہ رکھنے کے باوجود تعلیمی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جرمنی میں کام نہیں کر پاتے۔

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے تارکین وطن و مہاجرین نے حال ہی میں مہاجرین کے روزگار سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2007ء سے 2012ء کے درمیان جرمنی آنے والے اٹھائی سو پناہ گزینوں میں سے صرف 37 فیصد افراد ہی جرمنی میں روزگار تلاش کر پائے ہیں۔ جب کہ تئیس فیصد تارکین وطن ایسے ہیں جو حکومت سے بے روزگاری الاؤنس وصول کر رہے ہییں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید