1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے لیے چوبیس گھنٹے کی مہلت

عاطف بلوچ، روئٹرز
11 نومبر 2017

پاپوا نیو گنی کے مانوس جزیرے پر واقع مہاجرین کے حراستی مرکز کی بندش میں چوبیس گھنٹے کی توسیع کر دی ہے۔ دوسری طرف آسٹریلیا میں ان مہاجرین کے حق میں احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2nRvx
Proteste gegen Flüchtlingscamps in Sydney Australien
تصویر: Getty Images/AFP/P. Parks

خبر رساں ادارے روئٹرز نے گیارہ نومبر بروز ہفتہ بتایا کہ پاپوا نیو گنی کے جزیرے مانوس پر قائم آسٹریلوی حکومت کے زیر انتظام مہاجر کیمپ کی بندش میں چوبیس گھنٹے کی توسیع کر دی گئی ہے۔ تاہم اس تاخیر کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ روئٹرز نے اس کیمپ میں موجود تین مہاجرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاپوا نیو گنی کے متعلقہ حکام نے انہیں کہا ہے کہ وہ اتوار تک اس کیمپ میں رہ سکتے ہیں۔

زبردستی نہ کی جائے، مہاجرین کی آہ و بکا

نیوزی لینڈ کی مہاجرین کو پناہ دینے کی پیشکش

پانی، بجلی اور خوراک کی فراہمی معطل، مہاجرین پریشان

’مہاجر بچے کہاں سوتے ہیں‘

مانوس کے اس کیمپ میں گزشتہ چار سالوں سے مقیم عراقی مہاجر بہروز بوچانی نے روئٹرز کو بتایا کہ اس حراستی مرکز کے باہر موجود  پولیس اہلکاروں نے مائیکروفون کے ذریعے یہ اعلان کیا کہ اس کیمپ میں موجود افراد مزید ایک دن وہاں رہ سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی طرف سے شدید مذمت اور تحفظات کے باوجود پاپوا نیو گنی نے اس کیمپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تناظر میں ملکی سپریم کورٹ بھی اس فیصلے کی حمایت کر چکی ہے۔

اکتیس اکتوبر کو مقامی حکومت نے مانوس میں واقع اس کیمپ کی بجلی اور پانی کا نظام منقطع کر دیے تھے۔ آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیمپ میں موجود قریب چھ سو مہاجرین کے لیے نئے شیلٹر ہاؤس بنائے گئے ہیں تاہم یہ مہاجرین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر انہوں نے مانوس جزیرے پر واقع یہ کیمپ چھوڑا تو انہیں ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔

ان مہاجرین کو یہ خدشات بھی لاحق ہیں کہ دیگر مہاجر کیمپوں میں منتقل ہونے پر سکیورٹی کی عدم موجودگی کے باعث مقامی آبادی انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنا سکتی ہے۔

مانوس کے اس مہاجر شیلٹر ہاؤس میں موجود کچھ مہاجرین کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان، ایران، میانمار، سری لنکا اور شام سے تعلق رکھنے والے باشندے بھی اس کیمپ میں موجود ہیں۔

ان میں سے کئی ایسے افراد بھی ہیں، جو کئی برسوں سے یہاں مقیم ہیں۔ ابتدائی طور پر ان کی کوشش تھی کہ وہ سمندری راستے کے ذریعے آسٹریلیا پہنچ جائیں۔ تاہم آسٹریلوی حکومت کی طرف سے سخت نگرانی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا اور ان مہاجرین کو پکڑ کر مانوس کے جزیرے پر قائم اس حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

مانوس کے جزیرے پر مشکل حالات میں سکونت پذیر ان مہاجرین کی خاطر آسٹریلیا میں مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ جمعے کے دن سڈنی کے نواح میں سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ کے ایک فنڈ ریزنگ ایونٹ کے دوران مظاہرین نے نعرے لگائے کہ ‘مانوس کیمپ کو بند کرو اور مہاجرین کو آسٹریلیا لاؤ‘ اور ’تشدد بند کرو‘۔ اسی طرح ملبورن میں ایک احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا، جس کے نتیجے میں روزمرہ زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔