1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجر بچوں کی تعليم کا وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے‘

عاصم سلیم Chloe Lyneham
10 اکتوبر 2017

جنگی تنازعات کے سبب دنيا بھر ميں موجود مہاجرين کی ايک بہت بڑی تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان ميں سے اکثر بچوں کو تعليم جيسی بنيادی سہولت بھی ميسر نہيں۔

https://p.dw.com/p/2labS
Syrien Schule im Flüchtlingslager Azaz
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Rassloff

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين کے پاس عالمی سطح پر اس وقت رجسٹرڈ مہاجرين کی تعداد 17.2 ملين بنتی ہے، جن ميں قريب نصف کی عمريں اٹھارہ برس سے کم ہيں۔ مہاجر بچوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ايک حاليہ رپورٹ ميں ہائی کمشنر برائے مہاجرين فيليپو گرانڈی نے کہا ہے کہ ان بچوں کی مناسب تربیت کے لیے دستیاب وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ان کے بقول تعليمی سہولیات کی عدم فراہمی کی صورت میں ان بچوں سے ان کا مستقبل چھینا جا رہا ہے۔ گرانڈی کے بقول مہاجر بچوں کے مستقبل کے ليے اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ وہ بھی مستقبل ميں سائنسدان، ماہرین تعمیرات، شاعر، اساتذہ اور ڈاکٹرز وغيرہ بن سکيں، جو اپنے اپنے آبائی ممالک ميں قيام امن کے بعد وہاں واپس جا کر ان معاشروں کو دوبارہ ان کے پاؤں پر کھڑا کر سکيں۔ گرانڈی نے مزيد کہا کہ مہاجر بچوں کی تعليم ان ممالک کے ليے بھی اہميت کی حامل ہے، جو انہيں پناہ ديے ہوئے ہيں تاکہ يہ بچے وہاں بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکيں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے مطابق عالمی سطح پر مہمان ممالک میں موجود مہاجر بچوں ميں سے اسکول جانے کی عمر  کے لگ بھگ ساڑھے تين ملين بچے پچھلے سال سرے سے کسی اسکول جا ہی نہ سکے۔ عام افراد کے مقابلے ميں مہاجرين کے پس منظر والے افراد کے بچوں کے ليے تعليم و تربیت کے امکانات پانچ گنا کم ہيں۔ جب اتنے زيادہ مہاجر بچے پرائمری اسکول ہی نہيں جا پاتے، تو ان کے سيکنڈری اسکولوں میں پہنچنے کے امکانات بھی متاثر ہوتے ہيں۔ دنيا بھر ميں اوسطاً چوراسی فيصد بچے ہائی اسکول جاتے ہيں ليکن اگر مہاجر بچوں کے ہائی اسکولوں میں پہنچنے کا تناسب ديکھا جائے، تو يہ صرف تئیس فيصد بنتا ہے۔

يو اين ايچ سی آر کا موقف ہے کہ مہاجر بچوں کو تعليم فراہم کرنے کے ليے اس ضمن ميں بنيادی ڈھانچے کا ہونا ضروری ہے۔ ايسے بچوں کے ليے تعليم کو قومی اور بين الاقوامی سطح پر کی جانے والی منصوبہ بندی اور بجٹ منصوبوں کا حصہ ہونا چاہيے۔ دريں اثناء لبنان، اردن اور ترکی ميں موجود شامی مہاجرين کے حوالے سے ہيومن رائٹس واچ کی حال ہی ميں جاری کردہ ايک رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا گيا ہے کہ ان ملکوں ميں موجود قريب پانچ لاکھ تیس ہزار مہاجر بچوں کو تعليمی سہولیات ميسر نہيں۔

پچھلے سال کے آغاز پر يورپی يونين، برطانيہ، جرمنی، ناروے، امريکا اور جاپان نے مجموعی طور پر 1.4 بلين ڈالر بطور امداد دينے کا اعلان کيا تھا، جس سے شام کے پڑوسی ممالک ميں رہائش پذير شامی مہاجر بچوں کے لیے تعليم کو يقينی بنايا جانا تھا۔ تاہم لبنان کو دی جانے والی امداد میں ستانوے ملين اور اردن کو دی جانے والی امداد ميں ساڑھے ستر ملين ڈالر کی کمی کر دی گئی تھی۔