1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہمند ایجنسی: آپریشن بھی، مہاجرین کی واپسی بھی

21 جون 2011

پاکستانی قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں ایک طرف عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے تو دوسری جانب دہشت گردوں سے پاک قرار دیے جانے والے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کو واپس ان کے گھروں کو بھیجا جارہا ہے۔

https://p.dw.com/p/11gFP
مہمند ایجنسی میں ایک خود کش حملے میں تباہ ہونے والی ایک عمارت، فائل فوٹوتصویر: AP

سرکاری حکام نے منگل کی شام تک مہمند ایجنسی کے مہاجرین کے کیمپ سے 1636خاندانوں کی واپسی کا دعویٰ کیا جبکہ اکثریت یہ دلیل دیتے ہوئے واپس جانے پر تیار نہیں کہ اگر ایک طرف امن و امان کی صورتحال غیر یقینی ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کی وجہ سے نہ صرف علاقے میں انفرا سٹرکچر تباہ ہوا ہے بلکہ ان کی کھڑی فصلیں تباہ اور جانور ہلاک ہوچکے ہیں۔

ایسے میں ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ مہمند ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ امجد علی کا کہنا ہے کہ واپس جانے والے خاندانوں کو ایک ماہ کے لیے راشن، ہائی جین کِٹ اور دیگر اشیائے ضرورت فراہم کی جا رہی ہیں اور یہ سلسلہ چھ ماہ تک جاری رہے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے مہمند ایجنسی کا 90 فیصد علاقہ عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا ہے۔

Pakistan US Angriff im Grenzgebiet
مہمند ایجنسی میں ایک ڈرون حملے میں زخمی ہونے والا ایک شہری، فائل فوٹوتصویر: AP

دو ماہ کے سخت مقابلے کے بعد عسکریت پسندوں کے زیر اثر علاقے ولی داد کنڈاﺅ کا کنٹرول سنبھال لیا گیا ہے اور اپر مہمند کے علاقوں کوز جمر کنڈ اور غلین گاہ کو بھی صاف کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مہاجرین کی اکثریت اپنے گھروں کو جانے سے کتراتی ہے۔ ان لوگوں میں شامل صالح محمد نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”علاقے میں امن نہیں ہے۔ کون نہیں چاہتا کہ اپنے گھر جائے۔ لیکن وہاں تو سب کچھ تباہ ہوچکا ہے۔ نہ کوئی اسکول ہے اور نہ کوئی ہسپتال۔ اسی طرح ہماری زمین بھی تباہ ہو چکی ہے۔ کاشتکاری کا نظام بھی برباد ہو چکا ہے۔ ایسے میں ہم وہاں جا کر کیا کریں گے، جہاں نہ کام ہے اور نہ ہی امن۔‘‘

17 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے شہریوں کی وجہ سے صوبے کی معیشت اور امن و امان کی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ’’لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت بے گھر ہونے والے ان افراد کی ہر ممکن امداد کے لیے کوشاں ہے۔‘‘ پشاور میں صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے IDPs اور افغان مہاجرین کی وجہ سے اس صوبے کو نقصان پہنچا ہے اور جس طرح وفاق نے ان قبائلی علاقوں کے لیے غیر ملکی امداد حاصل کی ہے، اس طرح انہوں نے ہماری اور یہاں آنے والوں کی مدد نہیں کی۔ جس طرح پوری دنیا اپنی توجہ قبائلی علاقوں کے عوام کو دے رہی ہے، اتنی توجہ پاکستانی حکومت نے نہیں دی۔

Selbstmordanschlag in Pakistan
پاکستانی قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں ایک خود کش حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو پشاور کے ایک ہسپتال میں لایا جا رہا ہے، فائل فوٹوتصویر: AP

’’ان تمام بے گھر افراد کا 90 فیصد بوجھ خیبر پختونخوا کی معیشت پر ہے۔ یہ علاقے وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول ہیں۔ لیکن ہم انہیں اپنے سے الگ تصور نہیں کرتے۔ ہمیں انتظامی طور پر الگ کیا گیا ہے۔ جتنے بھی لوگ بے گھر ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر نے پشاور یا صوبہ خیبر پختونخوا کے دوسر ے شہروں میں پناہ لی ہے۔‘‘

صوبائی وزیر اطلاعات افتخار حسین کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں اور ان کے سارے راستے ہمارے صوبے سے ملتے ہیں۔ ’’یہی وجہ ہے کہ کہیں بھی بد امنی یا آپریشن ہو، یہ لوگ پناہ لینے کے لیے یہاں آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘

مہمند ایجنسی میں 27 جولائی 2007ء کو عسکریت پسندوں نے تحصیل صافی کے علاقے لکڑو بازار میں حاجی صاحب ترنگزئی کے مزار پر قبضہ کر کے اسے لال مسجد کا نام دے دیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے حکومتی عملداری کی بحالی کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ہزاروں خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔ آج بھی مہمند ایجنسی کے نواحی علاقوں میں موجود کیمپوں کے علاوہ پشاور کے قریب واقع جلوزئی کیمپ میں مہمند ایجنسی کے1580خاندان رہائش پذیر ہیں جبکہ اس کیمپ میں باجوڑ کے تقریباﹰ 13ہزار اور خیبر ایجنسی کے ساڑھے چار ہزار سے زائد رہائشی بھی مقیم ہیں، جو سہولیات کے فقدان کی مسلسل شکایت کرتے ہیں۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں