1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہنگی چینی بھی نایاب، پاکستان میں بحران سنگین تر

4 ستمبر 2009

پاکستانی صوبہ پنجاب میں چینی کے بحران کے نتیجے میں حکومت شوگر ملوں کے مالکان، چینی کے ڈیلروں اور گاہکوں میں پیدا ہونے والی کرواہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/JSbH
پاکستان میں چینی کے شدید بحران کے باعث عوام کی بڑی تعداد لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر چینی حاصل کرنے کی خواہش میںتصویر: Tanvir Shahzad

تازہ اطلاعات کے مطابق پاکستانی پنجاب میں چینی کا بحران سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ پنجاب کی شوگر ملوں نے مارکیٹ کو چینی کی سپلائی روک دی ہے۔ مہنگوں داموں چینی خرید کر بیچنے والے شوگر ڈیلروں نے سستے داموں چینی فروخت کرنے کے عدالتی حکم کے بعد چینی کے سٹاک مارکیٹ سے اٹھانا شروع کر دئے ہیں۔ اس طرح مارکیٹ میں چینی نایاب ہوتی جا رہی ہے اور رمضان کے مہینے میں صارفین کو چینی کی بد ترین قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز پنجاب حکومت کو ہدایت کی تھی کہ وہ چالیس روپے فی کلو گرام کے حساب سے چینی کی فروخت کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات کرے۔ اس فیصلے کے بعد پنجاب حکومت نے شوگر ملوں اور ان کے گوداموں پر پولیس اور ریو نیو کے عملے کا پہرا بٹھا دیا ہے۔ جمعہ کے روز وزیر اعلیٰ پنجاب اور کئی صوبائی وزرا عدالتی حکم کے مطابق چینی کی چالیس روپے فی کلو گرام کے حساب فروخت کے حوالے سے دن بھر حکمت عملی تشکیل دینے میں مصروف رہے۔

ادھر شوگر ملوں کے مالکان نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق شوگر ملوں کے مالکان نے اپنے ابتدائی ردِ عمل میں، عدالتی حکم کے مطابق سستی چینی کی فروخت یقینی بنانے کے لئے اپنا تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔ تاہم اس سلسلے میں شوگر ملوں کے مالکان کا وزیر اعلیٰ پنجاب کے ساتھ حتمی اجلاس جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات منعقد ہو رہا ہے، جس میں اس مسئلے کا حل نکالنے کی آخری کوشش کی جارہی ہے۔

Frauen, die aus einem Lastwagen Mehl kaufen
کچھ عرصے قبل عوام کو آٹے کے حصول میں بھی ایسی ہی دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھاتصویر: Tanvir Shahzad

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب شوگر ڈیلر زایسوسی ایشن کے صدر رانا ایوب نے بتایا کہ حالیہ عدالتی فیصلے میں شوگر ڈیلروں کے مالی مفادات کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ ان کے مطابق کوئی تو اس سوال کا جواب دے کہ شوگر ڈیلروں کو مالی نقصان کا شکار کیوں بنایا جا رہا ہے؟

پنجاب کے صوبائی وزیر خوراک ملک ندیم کامران نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں دو لاکھ سے سوا دو لاکھ میٹرک ٹن تک چینی موجود ہے، جسے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کی طرف سے چینی کی قیمت سنتالیس روپے فی کلو گرام مقرر کئے جانے کے بعد مہنگے داموں (قریباً پنتالیس روپے فی کلو گرام) کے حساب سے خریدا گیا تھا۔ اب اگر عدالتی حکم کے تحت یہ چینی چالیس روپے فی کلوگرام کے حساب سے بیچی جائے تو اس سلسلے میں چینی کے تاجروں کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کے مطابق اگر چینی کے کارخانوں کے مالکان کے ساتھ سختی سے پیش آیا گیا تو پھر وہ اکتوبر میں شروع ہونے والا کرشنگ سیزن موخر کر سکتے ہیں، جس سے نہ صرف گنے کے کاشتکاروں کا نقصان ہو گا بلکہ گندم کی کاشت بھی تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔

تاہم ان سب عوامل کے باوجود پنجاب کے صوبائی وزیرخوراک ملک ندیم کامران کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لئے یکسو ہے اور اس کے لئے ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے گا۔ یہ پہلو قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ چینی کی قیمتیں پچپن روپے فی کلو گرام سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والے اقتصادی ماہرین کے مطابق اس وقت بھی1.4 ملین ٹن چینی موجود ہے جو کہ اکتوبر میں شروع ہونے والے کرشنگ سیزن تک کی چینی کی ضروریات سے بھی زیادہ ہے۔

بعض اقتصادی ماہرین کے مطابق عالمی منڈیوں میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے۔ ایک طرف زرعی اجناس کی خریدو فروخت کرنے والا پاکستان کا سرکاری ادارہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان، چینی کی مطلوبہ مقدار بروقت ذخیرہ کرنے میں ناکام رہا اور دوسری طرف حکومت بھی چینی بر وقت در آمد نہ کر سکی جس کی وجہ سے اس بحران میں شدت آتی چلی گئی۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت میں موجود چینی کے با اثر مل مالکان اپنا اثرو رسوخ استعمال کر تے ہوئے حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوئے، جس سے یہ بحران شدت اختیار کر گیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ حکومت اور اپو زیشن میں بیٹھے چینی مافیا کے لوگوں کے اثر و رسوخ کے باعث ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر پر ہاتھ ڈالنا نا ممکن ہے۔ ان کے مطابق ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے بے تحاشہ چینی موجود ہے، تاہم شوگر ملز مالکان مقامی چینی کی قیمتوں کو بین لاقوامی قیمتوں پر لانے کے لئے ٹی سی پی کو حکومت کی خریدی ہوئی چینی اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہی۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ با اثر چینی مافیا تا حال کم از کم پچیس ارب روپے سے زائد خالص منافع کما چکا ہے۔ جب کہ عوام کو چینی کے حصول کے لئے لمبی قطاروں اور چلچلاتی دھوپ میں کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پنجاب میں چھیالیس شوگر ملیں ہیں جن میں سے صرف آٹھ شوگر ملیں ایسی ہیں جو سیاسی وابستگی نہ رکھنے والے غیر معروف صنعت کاروں کی ملکیت ہیں بقیہ 38 شوگر ملوں میں سے دس شوگر ملیں معروف صنعتی گھرانوں یا گروپوں کی ملکیت ہیں جبکہ بقیہ شوگر ملوں کے مالکان میں نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز، میاں الیاس (نواز شریف کے کزن)، ہمایوں اختر خان، ہارون اختر خان (ہمایوں اختر کے بھائی )، پرویز الہیٰ (سابق وزیر اعلیٰ پنجاب)، جہانگیر ترین (سابق وفاقی وزیر )، الطاف سلیم (سابق وفاقی وزیر )، چوہدری ذکا ء اشرف (مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)، عامر سلطان چیمہ (سابق صوبائی وزیر برائے آبپاشی)، سردار نصر اﷲ دریشک (سابق صوبائی وزیر) اور مسلم لیگ فنگشنل کے رہنما اور شہباز شریف کے حمایتی مخدوم احمد محمود شامل ہیں۔ اس کے علاوہ برادرز شوگر ملز بھی نواز شریف کے کزن کی ملکیت ہے۔

مبصرین کے مطابق اگر اعلیٰ حکومتی اور سیاسی مناصب پر بیٹھے ہوئے یہ با اثر لوگ عملی طور پر عوام کی مدد کرنے پر تیار ہو جائیں تو لوگوں کے دکھوں میں کافی کمی لائی جا سکتی ہے۔

رپورٹ : تنویرشہزاد، لاہور

ادارت : عاطف توقیر