1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار: بیرونی امداد قبول

Sadaf, Huma23 مئی 2008

میانمار کی فوجی حکومت نے اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی امداد کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان جمعے کے روز اقوامِ متحدہ کے سیکٹری جنرل بان کی مون اورمیانمار کے فوجی حکمران تھان شوئے کی ملاقات کے بعد سامنے آیا۔

https://p.dw.com/p/E4xS
اقوامِ متحدہ کے سیکٹری جنرل بان کی مُون میانمار کے متاثرہ علاقوں کے دورے پرتصویر: AP

مبصرین کے مطابق میانمار حکومت کی جانب سے اس قدرے لچکدار روئیے سے مزید بات چیت کی راہ ہموار ہونے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ اس ملاقات سے پہلے میانمار کی حکومت طوفان سے متاثرہ علاقوں میں دو اعشاریہ پانچ ملین متاثرین کے لئے بیرونی امداد کو تسلیم کرنے اور امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقون میں داخلے کی اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔ میانمار حکومت نے ایشیائی ہمسایہ ممالک کی جانب سے آنے والی امداد کو بھی قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جمعرات کے روز بان کی مون نے طوفان سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لئے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایراوڈی کے علاقے کا دورہ کیا۔ مذکورہ دورے کے دوران اقوامِ متحدہ کے سیکٹری جنرل نے ایک حکومتی ریلیف کیمپ کا بھی دورہ کیا۔

حالیہ ملاقات کے بعد بان کی مون نے امید ظاہر کی ہے کہ برما کی حکومت مزید بیرونی امداد کو قبول کرنے میں لچک کا مظاہرہ کرے گی اور قدرتی آفات کے ماہرین اور بین الاقوامی امدادی ایجنسوں کو ایراوڈی طاس تک رسائی حاصل ہو پائے گی۔ بان کی مون کے مطابق امدادی کارروائیاں مہینوں تک جاری رہنی چاہیئں جبکہ اس سے قبل میانمار کے وزیرِ اعظم نے اقوامِ متحدہ کو بتایا تھا کہ ریلیف کارروائیوں کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب حکومت کی توجہ متاثرہ علاقوں کی تعمیرِ نو کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے تخمینوں کے مطابق دو اعشاریہ پانچ ملین متاثرین میں سے اب تک صرف ایک چوتھائی تعداد تک ہی امدادی سامان پہنچ پایا ہے۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔

عالمی برادری کی جانب سے برما کی فوجی حکومت پر متاثرین کی امداد کے لئے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ادھر برما کی حکومت کا کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق حالیہ طوفان کے نتیجے میں میانمار میں اٹہتر ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ چھپن ہزار افراد لا پتہ ہیں۔