1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں سمندری طوفان سےکم از کم 15ہزار افراد ہلاک

5 مئی 2008

اس تباہ کن سمندری طوفان کے بعد عالمی اداروں نے میانمار فوجی حکومت پر زور ڈالا ہے کہ وہ بیرونی امداد حاصل کرے ۔

https://p.dw.com/p/DtSC
میانمار تباہی کی لپیٹ میںتصویر: AP

مشرقی ایشیائی ملک میانمار میں نرگس نامی ایک طاقتور سمندری طوفان نے رنگون اور تقریبا سارے کے سارے جنوبی میانمار میں وسیع تر تباہی مچا دی۔ یہ سائیکلون اتنا شدید تھا کہ میانمار میں فوجی حکومت کو مجموعی طور پر پانچ ریاستی علاقوں کو آفت زدہ قرار دینا پڑگیا۔

خلیج بنگال کے علاقے سے میانمار کا رخ کرنے والا یہ سمندری طوفان ہفتہ کے روز تیز رفتار ہو گیا تھا اور پھردریائے اِیرا ودّی کے ڈیلٹا کے راستے شمال مشرق کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے بہت تباہی مچائی، اورکئی شہر بھی بری طرح متاثر ہوئے۔

عینی شاہدین کے مطابق،نرگس نامی اس طوفان کے ہاتھوں رنگون زیادہ تر ایک تباہ شدہ شہر کا منظر پیش کررہا ہے، جہاں ہزاروں گھروں کی چھتیں اُڑ گئیں، ہزار ہا درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے،بجلی کی فراہمی اور ٹیلی فون کا نطام درہم بھرہم ہو کر رہ گیا، اور یہ شہر اس وقت کسی جنگ زدہ خطے کی تصویر بنا ہوا ہے۔

ایک سو نوے کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے اس طوفان کے ساتھ تیز ہوائیں اور شدید بارشیں بھی تھیں، اور رنگون کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ تو ہفتہ کے روز ہی بند کرنا پڑگیا تھا۔

سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق، یہ طوفان اب تک 15کے لگ بھگ انسانوں کی جان لے چکا ہے۔ ان میں سے کم ازکم دو سو بائیس افراد آ یئے یا ودّی کے علاقے میں مارے گئے،جہاں دریائے اِیراودّی اپنے وسیع تر دہانے کے ساتھ سمندر میں جا ملتا ہے۔

باون ملین کی آبادی والے ملک میانمار میں عوام کی اکثریت سطح غربت سے نیچے زندگی گذارتی ہے، اور وہاں ہر تیسرا بچہ کم خوراکی کا شکار ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے کارکن ٹونی کریگ نے کہا ہے اقوام متحدہ کا ادارہ میانمار کی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے، اور میانمار میں عالمی ادارے کے نمائندے نے حکومتی اہلکاروں سے بات چیت بھی کی ہے۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اقوام متحدہ نے میانمار کو جس مدد کی پیشکش کی ہے، اُس کا فوجی حکومت نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

آئندہ ہفتے مینمار میں نئے ملکی آئین کی منظوری کے لئے ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرنا تھا۔ لیکن اب اس ریفرنڈم کا نعقاد کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

ابھی تک نہ تو نرگس نامی سمندری طوفان کے ہاتھوں تباہی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگایا جاسکا ہے، اور نہ ہی یہ امر واضح ہے کہ آیا حکومت اس تباہی،اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کے سبب، اس ریفرینڈیم کو ملتوی کرنے کا بھی سوچ سکتی ہے۔