1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرا نام کہاں ہے؟ افغان خواتین کی شناخت کی جنگ میں

24 اگست 2017

سوشل میڈیا کی ایک مہم میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو ان کے ناموں سے پکارا جائے۔ اس قدامت پسند ملک میں عمومی طور پر خواتین کو ان کے شوہروں یا والدین کے ناموں کے حوالے سے ہی جانا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2ik8H

 نوجوان افغان خواتین نے آن لائن ایک مہم شروع کی ہے، جس میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان کی شناخت انہیں لوٹائی جائے۔ یعنی انہیں ان کے نام سے ہی پکارا جائے نہ کہ یہ کہا جائے کہ یہ فلاں کی بیوی ہے یا فلاں کی بیٹی۔ تاہم افغانستان جیسے قدامت پسند ملک میں ایسی صدیوں پرانی روایات کا خاتمہ ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔

پاکستان: فرسودہ روایات کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتی خواتین

افغانستان: خواتین کو آگے لانے کی کوششوں کے خلاف سخت مزاحمت

افغانستان: مستقبل ميں عورت کا مقام، ايک سواليہ نشان

چھبیس سالہ افغان خاتون تہمینہ آریان نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ تبدیلی چاہتی ہیں، اسی لیے انہوں نے اس آن لائن مہم کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں تبدیلی کی خواہاں ہوں۔ مجھے شدید کوفت ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم قرون وسطیٰ جیسے حالات میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔‘‘ وہ پرعزم ہیں کہ نوجوان نسل کی کوششیں ضرور تبدیلی کا باعث بنیں گے اور افغان خواتین کو ان کی شناخت مل جائے گی۔

افغانستان ميں خواتين کا اولين ٹیلی وژن چينل

افغانستان میں یہ مہم جولائی میں اس وقت شروع ہوئی، جب مغربی شہر ہرات کی کچھ خواتین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک اور ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ  WhereIsMyName# کے ساتھ اپنی تصاویر اور خیالات شیئر کرنا شروع کیے۔

جلد ہی افغانستان میں سینکڑوں خواتین اس آن لان مہم میں شامل ہو گئیں۔ اس پیشرفت کو ایک مثبت تبدیلی قرار دیا جا رہا ہے۔

اس مہم میں مرد بھی شامل ہو چکے ہیں، جنہوں نے اپنی بیویوں کے نام شیئر کیے ہیں، جس کا مقصد انہیں ان کی شناخت واپس دلوانے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔

اے ایف پی نے بتایا ہے کہ افغانستان کی اشرافیہ بھی اس مہم کی حمایت کر رہی ہے جبکہ مقامی نشریاتی اداروں میں اس حوالے سے مثبت گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی اس مہم کے تحت کابل میں ایک عوامی ایونٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اپنی نوعیت کے اس اّولین ایونٹ میں درجنوں خواتین بھی شریک ہوئیں۔

اس موقع پر حکومتی وزراء اور کئی اسکالرز نے بھی تقاریر کیں۔ اس ایونٹ کی منتظم تہمینہ نے بتایا، ’’ہم شجر ممنوعہ سمجھی جانے والی ایک روایت کو ختم کی خاطر جمع ہوئے ہیں۔ ہم چاہتے کہ ہماری خواتین کو اس بنیادی حق کے بارے میں علم ہو کہ انہیں ان کے نام سے پکارا جانا چاہیے اور انہیں ان کی شناخت ملنا چاہیے۔‘‘

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’خواتین کو ان کے نام سے نہ پکارا جانا، دراصل اس بات کی ثبوت ہے کہ وہ دوسرے درجے کی شہری ہیں اور ان کی اپنی کوئی شناخت نہیں بلکہ وہ صرف مردوں کی جائیداد ہیں‘۔ تہمینہ کہتی ہیں کہ اگر ایک خاتون کو اپنا نام معلوم ہو تو اسے اپنے وجود اور خواہشات کے بارے میں احساس ہو گا لیکن اگر وہ خود کو صرف اپنے باپ، بھائی یا خاوند کی آنکھ سے ہی دیکھے گی تو اس کی اپنی سوچ اور خواہشات ختم ہو جائیں گی۔

ماہر عمرانیات کے مطابق افغانستان میں خواتین کو ان کے مرد رشتہ داروں کے نام سے ہی پکارا جانا دراصل قبائلی ثقافت کا حصہ ہے۔ کئی واقعات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کسی افغان مرد کی بیوی کا نام کسی دوسرے مرد پر آشکارا ہو جائے تو معاشرتی سطح پر’اس کی عزت ختم ہو جاتی ہے‘۔

کابل یونیورسٹی سے وابستہ سماجی علوم کے پروفیسر محمد عامر کے مطابق یہ روایت صدیوں پرانی ہے اور اس کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فرسودہ روایت کو بدلنے کی خاطر کئی برسوں کا عمل درکار ہو گا۔