1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل اور یلدرم کی ٹیلی فونک گفتگو، کشیدگی کم کرنے کی کوشش

4 مارچ 2017

ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو کو تعمیری اور مثبت قرار دیا ہے تاہم جرمنی میں ترک باشندوں کی ریلیوں پر پابندی کے معاملے پر دونوں ممالک میں کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔

https://p.dw.com/p/2YeUx
Deutschland Türkei Oberhausen Auftritt Ministerpräsident Binali Yildirim
تصویر: Reuters/W. Rattay

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ترک میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے چار مارچ بروز ہفتہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ بتایا گیا ہے کہ ایک گھنٹے طویل اس ٹیلی فون کال کے دوران ترک وزیر اعظم نے جرمنی میں ترک باشندوں کی ریلیوں پر پابندی کے فیصلے کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے برلن حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔

ترکی اور جرمنی کی کشیدگی، ’اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘

اجلاس منسوخ کرنے پر جرمنی پر دوہرے معیار کا الزام، ترکی

ترک سياست دانوں کی جرمنی ميں ريلياں بند

ترکی میں اپریل میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے، جس میں ووٹرز نے فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ ترک صدر کے اختیارات میں اضافے کے حق میں ہیں یا نہیں۔ جرمنی میں ایسے ایک ملین ترک باشندے آباد ہیں، جو اس ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ اسی مقصد کی خاطر ترک حکومت نے جرمنی کے دو ایسے علاقوں میں ریلیاں منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جہاں ترک آبادی زیادہ تعداد میں ہے۔ ان ریلیوں کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے حامی سیاستدانوں نے خطاب بھی کرنا تھا تاکہ وہ جرمنی میں آباد ترکوں کی حمایت حاصل کر سکیں۔

ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ہفتہ چار مارچ کو قہر شہر میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا کہ جرمنی میں ترکوں کی ریلیوں پر پابندی کا فیصلہ جمہوریت اور آزادی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جرمنی میں آباد ترک شہری جرمن حکومت کے اس رویے پر اپریل کے ریفرنڈم کو زیادہ جوش کے ساتھ منظور کریں گے۔

میرکل کے ساتھ گفتگو کے بعد البتہ یلدرم نے کہا کہ وہ جرمنی میں ایسے جلسوں کے انعقاد کے حوالے سے مختلف حکمت عملی اختیار کریں گے۔ یلدرم نے مزید کہا کہ ترک وزیر خارجہ آئندہ ہفتے اپنے جرمن ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

Türkei Kirsehir - Türkischer Premierminister Minister Binali Yildirim
ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے قہر شہر میں ایک ریلی سے خطاب میں کہا کہ جرمنی میں ترکوں کی ریلیوں پر پابندی کا فیصلہ جمہوریت اور آزادی کے لیے ٹھیک نہیں ہےتصویر: picture-alliance/abaca/H. Goktepe

جرمنی کے علاوہ ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں بھی ترکوں کے ایک ایسے ہی جلسے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ اسی طرح آسٹریا میں بھی ایسی ریلیوں پر پابندی عائد کیے جانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ترکی میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں کے باعث یورپی ممالک تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں ہنگامی حالت نافذ ہے جبکہ اس دوران حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ایک سو چالیس صحافی بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

جرمنی اور ترکی کے مابین سفارتی کشیدگی جرمن روزنامے  ’دی ویلٹ‘ کے  ترک نژاد جرمن صحافی ڈینیز یوچیل کی گرفتاری کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یوچیل پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جرمنی کے لیے جاسوسی کرتے ہیں،’’ یوچیل جرمن خفیہ ایجنٹ ہے اور وہ کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کا نمائندہ ہے۔‘‘ جرمن وزارت خارجہ نے ایردوآن کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔