1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل حکومت افغان پالیسی واضح کرے، اپوزیشن کا مطالبہ

21 جنوری 2010

اٹھائیس جنوری کو لندن میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی افغانستان کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل جرمن حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے غیرمعمولی دباؤ کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/LcFw
تصویر: AP

اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ برلن حکومت افغانستان کانفرنس میں اپنے مذاکراتی مؤقف کو پہلے سے واضح کرے۔ بدھ کو وفاقی جرمن پارلیمان میں خارجہ پالیسی سے متعلق بحث میں مرکزی موضوع افغانستان ہی رہا۔ اس موقع پر ماحول پسند گرین پارٹی نے کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو اور فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی مخلوط حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جرمنی کی مستقبل کی افغانستان پالیسی کی تفصیلات پر کھل کر بات چیت سے پرہیز کیا جا رہا ہے۔ گرین پارٹی کے پارلیمانی دھڑے کے قائم مقام سربراہ Frithjof Schmidt کے بقول:''لندن میں ہونے والی افغانستان کانفرنس سے چند روز پہلے تک حکومت نے افغانستان سے متعلق اپنی حکمت عملی پیش ہی نہیں کی ہے''

Flash-Galerie Guido Westerwelle FDP
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلےتصویر: AP

آئندہ بدھ ، 27 جنوری کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل افغانستان پالیسی کے بارے میں سرکاری بیان دینے والی ہیں۔ اُس وقت تک افغانستان سے متعلق جرمنی کے مذاکراتی مؤقف کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیا برلن حکومت افغانستان متعین اپنی فوج کی تعداد میں اضافہ کرے گی؟

وفاقی جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اس بارے میں خود بھی ابہام کا شکار نظر آرہے ہیں۔ انکے بقول :'' اخباروں کی چند رپورٹوں کے برعکس میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ افغانستان میں ہمارے فوجیوں، مثال کے طور پر تربیتی فرائض انجام دینے والے ماہرین کی تعداد میں اضافہ بعید الزامکان ہے۔ میں نے یہ بھی کبھی نہیں کہا کہ ہم ایسا بہرحال ضرور کریں گے۔ ہمارے لئے سب سے پہلے افغانستان کا مستقبل اہم ہے ، اس کے بعد کہیں جا کر ملٹری تحفظ کی بات آتی ہے''

ویسٹر ویلے کے مطابق لندن کانفرنس، افغانستان میں محض فوجی تعیناتی سے متعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت ترقیاتی امداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہے اور افغانستان کی سلامتی کے اداروں کی تربیت کے لئے زیادہ سے زیادہ تعاون کرے گی۔

جرمن پارلمیان میں حکمراں جماعت سی ڈی یو کی خارجہ پالیسی کے نگران اور پارلیمانی دھڑے کے نائب سربراہ Andreas Schockenhoff کا ماننا ہے کہ یہی بات افغانستان سے جرمن فوج کے انخلاء کی ایک شرط بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''بنیادی اصول تو یہی کہتا ہے کہ جو اس جنگ سے پہلے نکلنا چاہتا ہے وہ افغان فوج اور پولیس کی تربیت کے لئے اپنے زیادہ ماہرین بھیجے، جو اس کے لئے تیار نہیں اسے لمبے عرصے تک افغانستان میں رہنا پڑے گا جو کہ ہم نہیں چاہتے''

Bundeskanzlerin Angela Merkel in Afghanistan PK mit dem afghanischen Präsidenten Harmid Karzai
افغان صدر حامد کرزئی لندن کی کانفرنس میں شرکت سے پہلے جرمن چانسلر کی دعوت پر 27 جنوری کو برلن آئیں گےتصویر: AP

ایک طرف تو جرمنی کی بائیں بازو کی جماعتوں کا اصرار ہے کہ جرمنی فوراً سے پیش تر افغانستان سے اپنے فوجی واپس بلائے دوسری جانب سوشل ڈیمو کریٹس یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ فوج کا انخلاء تین سے پانچ سال کے اندر عمل میں لایا جائے۔

دریں اثناء برلن سے موصولہ اطلاعات کے مطابق افغان صدر حامد کرزئی لندن کی کانفرنس میں شرکت سے پہلے جرمن چانسلر کی دعوت پر 27 جنوری کو برلن آئیں گے۔ جرمنی کے اس ایک روزہ دورے کے دوران کرزئی، انگیلا میرکل کے علاوہ جرمنی کی تمام سیاسی جماعتوں کے سیاستدانوں اور ماہرین سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔ کرسچن ڈیمو کریٹ لیڈرAndreas Schockenhoff کا کہنا ہے ’ہم محض یہ نہیں جاننا چاہتے کہ جرمن حکومت کی آئندہ افغانستان پالیسی کیا ہوگی بلکہ ہم یہ بھی سننا چاہتے ہیں کہ افغان صدر کرزئی اپنے ملک میں پائی جانے والی کرپشن کے بارے میں کیا کہتے ہیں‘۔

رپورٹ : کشور مصطفیٰ

ادارت : شادی خان سیف