1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مینگورہ: طالبان کی مسلح گشت

فرید اللہ خان، پشاور4 مئی 2009

سرحد حکومت کی جانب سے مالاکنڈ ڈویژن میں قاضیوں کی تقرری کے اعلان کے بعد طالبان نے مینگورہ کی اہم شاہراہوں اور بازاروں میں مسلح گشت شروع کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/Hjao
افغانستان سے ملحق پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں طالبان عسکریت پسند مسلّح کارروائیاں کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

سرحد حکومت کی جانب سے مالاکنڈ ڈویژن میں قاضیوں کی تقرری کے اعلان کے بعد سوات میں طالبان کی سرگرمیوں میں تیزی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر سوات میں اغواء ، قتل اورسرکاری عمارتوں کوتباہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ طالبان نے مینگورہ کی اہم شاہراہوں اور بازاروں میں مسلح گشت شروع کردیا ہے۔

طالبان نے اہم عمارتوں پر قبضہ کرکے چھتوں پر مورچے بنائے ہیں جہاں سے وہ شہرکی نگرانی کررہے ہیں خوف اورغیریقینی صورتحال کی وجہ سے شہر کے زیادہ تر بازار بند ہیں۔ دوسری جانب کوٹہ نامی علاقے میں سیکیورٹی فورسز پرحملہ کئے جانے کی اطلاع ہے جس میں تین اہلکار شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی شروع کی ہے۔ ساتھ ہی سیکیورٹی حکام نے سوات کے تحصیل مٹہ، بریکوٹ اورمدین میں بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کئے جانے کی اطلاع ہے۔

Chaos und Gewalt in Pakistan Besetzte Polizeistation nahe der afghanischen Grenze Musharraf verhängt Ausnahmezustand in Pakistan
صوبہِ سرحد کے بہت سے قبائلی علاقوں میں عملاً طالبان کا کنٹرول ہےتصویر: AP

سیکیورٹی فورسز نے پشاور مینگورہ روڈ کو ہر قسم کے ٹریفک کیلئے بند کردیا ہے۔ انتظامیہ نے مینگورہ میں شام سات سے صبح چھ بجے تک کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق کشیدگی میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے حکام نے کہا ہے کہ عسکریت پسند وں کے خلاف کسی بھی وقت فضائی آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ صوبائی انتظامیہ نے مینگورہ شہرمیں خودکش حملہ آوروں کے داخلے کی اطلاع کے بعد شہریوں کو گاڑی میں اکیلے سفر نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

دوسری جانب بونیرمیں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن پانچویں روزمیں داخل ہوگیا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے دستوں نے سواڑی، پیر بابا اور گاگرا کے علاقوں میں پیش قدمی کی ہے۔ ان علاقوں میں سیکورٹی فورسزکو عسکریت پسندوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ تازہ جھڑپوں میں سات عسکریت پسند مارے گئے۔ یوں پانچ روزہ آپریشن میں مرنیوالے کی تعداد اٹھاسی ہوگئی ہے جن میں اکیس دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ ان جھڑپوں کے دوران سیکیورٹی فورسز کے پانچ اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

Neue Militäroffensive gegen Taliban in Pakistan
بونیرمیں آپریشن کمانڈر بریگیڈئیر فیاض محمود قمرکا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے بونیرکے اسی فیصد سے زیادہ علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا ہےتصویر: picture-alliance/ dpa



بونیرمیں آپریشن کمانڈر بریگیڈئیر فیاض محمود قمرکا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے بونیرکے اسی فیصد سے زیادہ علاقے پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ڈگر سے بونیر تک اسی فیصد علاقے پر فورسز کا کنٹرول ہے تاہم پیر بابا اور سلطان وس کے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کو مزاحمت کا سامنا ہے۔بریگیڈئیر فیاض محمود قمرکا کہنا ہے کہ بعض علاقوں میں اب بھی عسکریت پسند چھپنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن بہت جلد ان پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مارے گئے عسکریت پسندوں میں سوات، وزیرستان سے تعلق رکھنے والوں سمیت تاجک اور ازبک باشندے بھی شامل ہیں۔

مالاکنڈ ڈویژن کے ضلع دیرمیں بھی نویں روز بھی سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رہا جس کے دوران میدان کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے متعدد ٹھکانوں کوبھاری توپخانوں سے نشانہ بنایاگیا۔ اس علاقے سے زیادہ تر لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں جن میں تحریک نفاذ شریعت کے سربراہ مولانا صوفی محمد بھی شامل ہے تحریک نفاذ شریعت کے اہم رہنماء غیاث الدین کو نامعلوم افراد نے اس وقت اغواء کیا جب وہ صوفی محمد کے ساتھ بٹ خیلہ سے لوئردیر پہنچنے کے بعد اپنے گاؤں جارہے تھے تاحال کسی تنظیم نے انکی اغواء کی زمہ داری قبول نہیں کی۔

ادھر تحریک نفاذ شریعت کے ترجمان امیر عزت خان کا کہناہے کہ اگر صوبائی حکومت دارالقضاء کے قاضیوں کی تقرری مولانا صوفی محمد کے مشورے سے کرے تو اسلحہ اٹھانے والوں کو واجب القتل قراردیا جا سکتا ہے۔