1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی یورپی یونین کی قیادت جرمنی کو کرنی چاہیے، لیخ ویلنسا

صائمہ حیدر17 جون 2016

پولینڈ میں آزادی کی جدوجہد کی علامت سمجھے جانے والے سابقہ پولش صدر لیخ ویلنسا کا موقف ہے کہ طاقت کے سرچشمے جرمنی کو ممکنہ بریگزٹ کے تناظر میں مکمل طور پر اصلاح شدہ یا نئی یورپی یونین کی قیادت کرنی چاہیے۔

https://p.dw.com/p/1J8jL
Deutschland Lech Walesa in Berlin
لیخ ویلنسا کی رائے میں جرمنی کو اس بات کا تخمینہ لگانا چاہیے کہ یورپی بلاک کی ترقی کے لیے کیا بہتر ہو گاتصویر: Reuters/M. Schreiber

رائے عامہ کے تازہ جائزوں کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کی مہم زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ویلنسا کا موقف رائے عامہ کے انہی جائزوں کی ایک کڑی ہے۔

برطانوی عوام رواں ماہ کی 23 تاریخ کو اس تاریخی ریفرنڈم میں حصہ لیں گے، جس میں برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا اسے خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ ویلنسا نے پولینڈ کے شہر گڈانسک میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے اپنے ایک انٹرویو میں کہا، ’’ بالخصوص جرمنی کو اس بات کا تخمینہ لگانا چاہیے کہ یورپی بلاک کی ترقی کے لیے کیا بہتر ہو گا۔ اس ضمن میں کیا ایک نیا ادارہ بنانا جانا چاہیے یا پھر موجودہ یورپی یونین میں پائی جانے والی کمزوریوں کو درست کرنا چاہيے؟ یہ فیصلہ جرمن حکومت کو کرنا چاہیے کیونکہ قیادت اس کے ہاتھ میں ہے اور اسے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ وہ کس کے ساتھ مل کر تعمیری عمل کا آغاز کرنا چاہتی ہے۔‘‘

Flaggen von Großbritannien und der EU
برطانوی عوام رواں ماہ کی 23 تاریخ کو یورپی یونین میں رہنے یا اسے خیر باد کہنے کا فیصلہ کریں گےتصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini

نوبل انعام یافتہ اور سن 1980 میں پولینڈ میں کمیونسٹ نظام کے خاتمے کے لیے پر امن مذاکرات کے لیے معروف سابقہ پولش صدر کا موقف ہے، ’’جرمنی کو اپنے شراکت دار ممالک فرانس اور اٹلی کے ساتھ مل کر یورپی یونین کے ٹوٹنے کی ممکنہ صورت میں فوری طور پر لاگو کرنے کے لیے ایک ہنگامی خاکہ تیار رکھنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یورپی یونین ٹوٹنے کے بعد ایک نئی یونین کا قیام لازمی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے بہت سوچ سمجھ کر بنایا جائے تاکہ جن مسائل کا سامنا ہم اب کر رہے ہیں، ان کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔ جو نئی یورپی یونین کا حصہ بننا چاہتے ہیں، ہمارے ساتھ آ سکتے ہیں اور جو نہیں آنا چاہتے وہ صرف ’جی نہیں شکریہ ‘ کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘

72 سالہ تجربہ کار پولش سیاست دان کا ماننا ہے کہ 28 رکنی یورپی یونین جس بحران سے گزر رہی ہے اس کا سبب مشترکہ اقدار کا رائج نہ ہونا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے اپنا مؤقف بتاتے ہوئے کہا، ’’ہم عیسائیت کو مسترد کر چکے ہیں۔ ہم نے کمیونزم جیسے نظریات کو بھی مسترد کر دیا ہے اور اب کچھ باقی نہیں بچا ہے۔ ہم ایسے معاشروں سے کیا توقع کر سکتے ہیں جن میں سے ہر ایک کی بنیاد مختلف اقدار پر ہے۔‘‘

عالمی سطح پر سرگرم عمل ویلنسا کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی اور اقتصادی انضمام کے لحاظ سے ایک زیادہ مرکزی یورپ کی تشکیل کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔ ویلنسا کا ماننا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں خود ان کے ملک پولینڈ کو یورپی ڈھانچے سے جڑے رہنا چاہیے۔