1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے دورحکومت میں ایٹمی پالیسی پرانی رہےگی،احمدی نژاد

رپورٹ:ندیم گل، ادارت:عدنان اسحاق14 جون 2009

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے انتخابات میں اپنی فتح کو جائزقرار دیا ہے جبکہ اعتدال پسند مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔ تہران میں دن کے آغاز پر صورت حال پرامن تھی، بعدازاں ایک مرتبہ پھر فسادات شروع ہوگئے۔

https://p.dw.com/p/I99a
محموداحمدی نژادتصویر: AP

پولیس نے 170مظاہرین کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔

Wahlen Iran Frauen Protest
موسووی کی حامی ایک خاتون کا احتجاجتصویر: AP

اُدھر احمدی نژاد نے آج ایک نیوز کانفرنس کے دوران انتخابی نتائج پر کی گئی تنقید کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بھاری ٹرن آؤٹ سے دُنیا پر حکمرانی کرنے والے جابرانہ نظام کو دھچکا لگا ہے۔

احمدی نژاد نے کہا کہ ان کے نئے دورِ صدارت میں ایران کی جوہری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایران پر حملہ کرنے والے کسی بھی ملک کو پچھتانا ہی پڑے گا۔

احمدی نژاد کے حریف اعتدال پسند رہنما محمد علی عبتاحی کا کہنا ہے کہ ہفتے کی رات پرتشدد مظاہروں کے دوران ان کے ایک سو سے زائد کارکنوں کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا گیا ہے۔ عبتاحی نے خدشہ ظاہر کیا کہ مزید گرفتاریاں عمل میں آ سکتی ہیں۔ گرفتار شدگان میں سابق صدر محمد خاتمی کے بھائی محمد رضا خاتمی بھی شامل ہیں۔

تاہم عدالتی ترجمان کے مطابق اعتدال پسند کارکنوں کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ انہیں طلب کر کے کشیدگی پھیلانے سے باز رہنے کے لئے خبردار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد کو بعدازاں رہا کر دیا گیا۔

خبررساں ادارے اے پی کے مطابق حکومت نے موجود حالات و واقعات کے بارے میں معلومات تک رسائی اور ان کی ترسیل پر کنٹرول سخت کر دیا ہے جس کا مقصد گزشتہ روز کے تشدد مظاہروں کو دہرائے جانے سے روکنا ہے۔ ایرانی حکومت نے انٹرنیت کی فلٹرنگ میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اتوار کو تاہم موبائل فون سروس بحال کر دی گئی لیکن ایرانی شہری ابھی تک ایس ایم ایس ارسال نہیں کرسکتے۔

واضح رہے کہ اعتدال پسندوں رہنما میر حسین موسووی کی جانب سے صدارتی انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگیوں کےا لزام پر ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ہفتے کو بدترین احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ مظاہرین نے دارالحکومت میں متعدد گاڑیاں نذرآتش کیں اور پولیس پر پتھراؤ کیا۔

Iran Krawall Proteste Teheran
مظاہروں کے دوران نذرآتش کی گئی ایک گاڑیتصویر: AP

میرحسین موسووی نے انتخابی نتائج سے قبل ہی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے اپنی فتح کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بیشتر لوگ حق رائے دہی استعمال نہیں کر سکے جبکہ بعض پولنگ اسٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کم پڑ گئے۔

ایرانی وزارت داخلہ کے مطابق احمدی نژاد کو 63 فیصد جبکہ موسووی کو تقریبا 33 فیصد ووٹ ملے۔ ایران میں 46 ملین افراد ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹرن آؤٹ 85 فیصد رہا۔

دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں نے احمدی نژاد کے دوبارہ انتخاب کو مغربی طاقتوں کے لئے مایوس کن قرار دیا ہے جو ایران کو اپنا جوہری پروگرام روکنے پر قائل کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔

لندن میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مارک فٹزپیٹرک کہتے ہیں کہ احمدی نژاد کی انتخابی کامیابی ایران کے جوہری تنازعے کے جلد حل کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

ان انتخابات کے بعد ایران کے بارے میں بیرونی دُنیا میں تو بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اندرون ملک بھی سیاسی دھڑوں میں اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔ احمدی نژاد نے اپنے حریفوں پر الزام عائد کیا کہ وہ مغرب کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے اصولوں کو اپناتے ہوئے قومی تشخص کو نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ احمدی نژاد کے حریف سابق وزیر اعظم میر حسین موسووی کا کہنا ہے کہ قدامت پسند صدر نے اپنی انتہاپسند خارجہ پالیسی کے ذریعے ایرانیوں کی تذلیل کی۔

Iran - Mir Hossein Mussawi
میرحسین موسوویتصویر: AP

52 سالہ احمدی نژاد نے چار سال قبل 1979 کے اسلامی انقلاب کی بحالی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے تیل برآمد کرنے والے دُنیا کے چوتھے بڑے ملک

کی صدارت کا منصب سنبھالا تھا۔ انہوں نے ملک کے جوہری پروگرام کی توسیع کی، ان مغربی الزامات کو رد کیا کہ اس منصوبے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کی تیاری ہے۔ ہولوکوسٹ کا انکار اور اسرائیل کے خلاف سخت بیانات کے ذریعے بھی انہوں نے عالمی طاقتوں کو ناراض کیا۔