1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا میں دو سو مہاجرین بھوک اور پیاس سے ہلاک

عاطف توقیر23 جون 2016

شدت پسند تنظیم بوکوحرام کی کارروائیوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے مہاجرین میں سے دو سو گزشتہ ماہ بھوک اور پیاس سے ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/1JBqF
Symbolbild Nigeria Bama Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Ola

عالمی امدادی ادارے ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی جانب سے بدھ 23 جون کو بتایا گیا ہے کہ بوکوحرام کے حملوں کے تناظر میں اپنے گھربار چھوڑ کر نائجیریا کے شمال مشرقی شہر باما میں پناہ لینے والے مہاجرین میں سے قریب دو سو گزشتہ ماہ کھانے کی اشیاء اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھے۔

اس بین الاقوامی ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ باما میں موجود مہاجرین اور خصوصاﹰ بچے روزانہ کی بنیاد پر بھوک اور پیاس کا شکار ہو کر اپنی زندگی کھو رہے ہیں۔

Symbolbild Nigeria Bama Flüchtlinge
بوکوحرام کی کارروائیوں کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Ola

ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈز کے مطابق، ’’اس علاقے میں ایک تباہ کن انسانی المیے کی سی صورت حال ہے۔‘‘

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اب تک اس کے ایک ہسپتال کی عمارت کے احاطے میں سینکڑوں مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ میدوگوری میں بھی 16 بچوں کو خوراک کی کمی ہی کا شکار ہونے پر ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے ایک وارڈ میں خصوصی طریقے سے خوراک دی جا رہی ہے، تاہم ان کے فوت ہو جانے کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بوکوحرام کے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے 15 ہزار مہاجرین میں سے ہر پانچ میں سے ایک خوراک اور پانی کی قلت کا شکار ہے۔

نائجیریا میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مشن کی سربراہ غدا حاتم کا کہنا ہے، ’’ہم دہشت گردی اور حملوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے اپنے ان مریضوں میں سے ہر ایک کے چہرے پر خوف و دہشت دیکھ رہے ہیں۔‘‘

حاتم کی ٹیم منگل کے روز ایک فوجی قافلے کے ہم راہ بورنو صوبے کے شہر میدوگوری پہنچی تھی۔ میدوگوری ہی میں بوکوحرام کے خلاف جاری سرکاری فوجی آپریشن کا ہیڈکوارٹر بھی قائم ہے۔

باما کا علاقہ میدوگوری سے 70 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے، جب کہ فوج اور بوکوحرام کے درمیان جاری جھڑپوں کی وجہ سے اس علاقے میں سفر غیرمحفوظ ہو گیا ہے، جب کہ مقامی کسان بھی گزشتہ 18 ماہ سے کوئی فصل کاشت نہیں کر پائے ہیں۔