1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نابینا بچوں کی عید

عمار مسعود
13 اگست 2019

پاکستان میں نابینا افراد کے حوالے سے زیادہ تر تحریریں درد، رنج اور جذبات کے تحت لکھی جاتی ہیں۔ ایسی تحریریں جن کے پڑھنے سے دل میں جذبہ رحم تو پیدا ہوتا ہے مگر نہ تو مسائل کا درست ادراک ہوتا ہے اور نہ حل کی طرف پیش قدمی۔

https://p.dw.com/p/3NqGP
Ammar Masood
تصویر: privat

نابینا افراد کے حوالے سے ہمارا جذبہ رحم زیادہ تر کسی نابینا بچے کو اچھا کھانا کھلا دینے، نئے کپڑے لے دینے یا پھر مالی معاونت تک محدود ہوتا ہے۔ نابینا افراد کے تعلیمی مسائل نہایت سنجیدہ موضوع ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل پر سنجیدہ بات کی جائے اور ان کے لیے مناسب حل تجویز کیے جائیں۔ تقریبا بائیس برس ان بچوں کے ساتھ کام کرنے کے بعد میں اس تحریر کو لکھنے کے قابل ہوا ہوں۔ کوشش کروں گا کہ درست سمت کی طرف نشاندہی کرسکوں۔

نابینا بچوں کی تعلیم کے کئی مراحل ہیں اور ہر مرحلہ اہم ہے۔ تعلیم  کے بنیادی طور پر تین طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ بریل کہلاتا ہے۔ دوسرا صوتی کتب کے نام سے موسوم ہے اور تیسرا طریقہ دور جدید میں "ٹاکنگ کمپیوٹر" کہلاتا ہے۔

ان تینوں مرحلوں سے نابینا بچوں کا گزرنا بہت ضروری ہے۔ ان بچوں کو عموما پہلی سے پانچویں جماعت تک بریل میں تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ لفظوں کے ہجے، ریاضی کے سوالات اور الفاظ کی بنت سے یہ بچے واقف ہو سکیں اور بریل سیکھے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

پانچویں جماعت کے بعد ان بچوں کو صوتی کتب سے تعلیم دینا بہتر ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کتاب آڈیو کی شکل میں دستیاب ہو۔ جب بچے دسویں جماعت میں پہنچتے ہیں تو ان کو ٹاکنگ کمپوٹر دینا چاہیے تاکہ وہ انٹرنیٹ کی دنیا سے واقف ہو سکیں۔

دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں ان تین طریقوں کے بارے میں کیا کیا رکاوٹِیں ہیں۔ پہلا مرحلہ بریل کا ہے۔ پاکستان میں بریل کتب کی کمیابی ہے۔ اکہتر برس گزر چکے ہیں لیکن خیبر پختونخوا (کے پی کے) اور بلوچستان میں ابھی تک ان بچوں کے لیے بریل پریس نہیں لگ سکے۔

عموما ان صوبوں میں پنجاب اور سندھ کی کتابیں دستیاب ہوتی ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ بچے نے امتحان کے پی کے بورڈ کا دینا ہے مگر اس کے پاس کتابیں پنجاب بورڈ کی ہیں، جس کی وجہ سے وہ فیل ہو جاتا ہے۔

بریل پڑھانے والے اساتذہ بھی دستیاب نہیں ہیں۔ بریل مشین جس کو ’پرکنز‘ کہتے ہیں ایک مہنگی مشین ہے اور یہ ہر شخص کی دسترس میں نہیں ہے۔ ہاتھ سے سوئیوں کی مدد سے ’فریم‘ پر بریل  لکھنے کے نقصانات یہ ہیں کہ اس سے بچوں کے ہاتھ چِھد جاتے ہیں۔ پاکستان میں بریل پیپر کی دستیابی بھی ایک مسئلہ ہے۔ بریل پیپر عام کاغذ سے موٹا ہوتا ہے اور تقریبا گتے جیسے ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے زیادہ تر نابینا بچے پرانے عید کارڈ جیسے موٹے کاغذوں پر بریل پریکٹس کرتے ہیں۔

صوتی کتب دستیاب نہیں ہیں۔ اگر کسی ادارے نے ان کتب کو ریکارڈ کیا ہے تو وہ کورس میں آئے روز ہونے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ نہیں کر سکا۔ یہ کتب عموما پرانی ٹیپ ریکارڈر والی کیسٹ پر دستیاب ہیں۔ اب ٹیپ ریکارڈر ملنا بند ہو گئے ہیں اور کیسٹ بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ سی ڈی، ڈی وی ڈی یا یو ایس بی تک نابینا بچوں کی رسائی نہیں ہے۔ جدید آلات ’ٹچ سسٹم‘ والے آ رہے ہیں، جن کو چلانا نابینا بچوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔

کمپیوٹر میں ایسے سوفٹ وئیر آگئے ہیں، جن کی مدد سے آپ کا کمپیوٹر ’ٹاکنگ کمپیوٹر‘ بن جاتا ہے۔ لیکن کمپیوٹر خریدنا ہر نابینا بچے کے بس کی بات نہیں۔ دوسرا انٹرنیٹ تک رسائی بھی بہت سے لوگوں کے لیے ممکن نہیں۔

میرے تجربے کے مطابق نابینا افراد کے لیے ’اسپیشل اسکول‘ تعلیم کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ صرف سرکاری ملازمتوں کا سبب ہیں۔ چونکہ حکومتوں نے اس شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے اس وجہ سے ان اسکولوں میں سرکاری بھرتیوں کی بھرمار ہے۔ پسماندہ علاقوں میں ایسے بھی اسپیشل اسکول ہیں، جہاں پچیس بچے ہیں اور ساٹھ سے زائد اساتذہ تعینات۔ ان ساٹھ میں زیادہ تر وہ سرکاری بھرتیاں ہیں جن کا اسپیشل ایجوکیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

نابینا بچوں کو امتحان میں اپنے ساتھ ایک رائٹر رکھنا پڑتا ہے جس کی انہیں قانونی طور پر اجازت ہے۔ اس مدد گار رائٹر کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ جس نابینا طالب علم کی مدد کر رہا ہے، اس سے ایک کلاس کم میں پڑھتا ہو۔ بعض اوقات رائٹر کی خراب لکھائی یا غلط املا کی وجہ سے بھی نابینا بچوں کے مارکس کم آتے ہیں۔ ہر نابینا بچے کو رائٹر کی وجہ سے امتحان میں اضافی پینتالیس منٹ ملتے ہیں۔ مگر عموما ممتحن اس قانون سے واقف نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں اکثر نابینا طلباء اس وقت اضافی وقت سے محروم ہی رہتے ہیں۔

مندرجہ بالا تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومتوں کی دلچسپی اور جذبہ درکار ہے۔ بدقسمتی سے ان مسائل کے حل کے لیے پہلا مرحلہ پاکستان میں نابینا افراد کے درست اعداد و شمار درکار ہیں، جو کہ آج تک ہمیں میسر نہیں ہیں۔

میں نے اس تحریر میں بھرپور کوشش کی ہے کہ اسے کسی بھی طرح ایک جذباتی تحریر نہ بناؤں مدلل طریقے سے مسائل پر گفتگو کروں۔ قارئین سے آخر میں بس اتنی درخواست ہے اگر کبھی کسی نابینا فرد کی مدد کو جی چاہے تو اس کو کوئی کتاب سنائیں، پھر دیکھیں کہ اس بچے کی عید کی خوشی کیسی ہوتی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔