1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نازی مسلمانوں کو ساتھ ملانے میں کیسے کامیاب ہوئے تھے؟

امتیاز احمد نستاسا شٹراوشلر
14 نومبر 2017

دوسری عالمی جنگ میں ہزارہا مسلمانوں نے نازیوں کا ساتھ دیا تھا۔ مؤرخ ڈیوڈ موٹیڈیل بتاتے ہیں کہ اڈولف ہٹلر کو مسلمانوں کی ضرورت کیوں تھی اور اس دور کے مسلم رہنماؤں نے ہٹلر کا ساتھ کیوں دیا تھا؟

https://p.dw.com/p/2nbvk
Bosnier bei der Wehrmacht (1943)
تصویر: Getty Images/Keystone

ڈی ڈبلیو: اپنی کتاب ’اسلام اور نازی جرمنی کی جنگ‘ میں آپ نے نازیوں کی مسلم دنیا کے حوالے سے پالیسیوں پر بات کی ہے۔ یہ پالیسیاں کیا تھیں؟

ڈیوڈ موٹیڈیل: سن انیس سو اکتالیس اور انیس سو بیالیس میں جب نازی فوجی بلقان، شمالی افریقہ، قفقاذ، مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے مسلم علاقوں میں داخل ہوئے تو انہوں نے اسلام اور اس کی سیاسی اہمیت کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اس کے بعد ہی نازیوں کی طرف سے مشترکہ دشمن برطانوی سلطنت، سوویت یونین، امریکا اور یہودیوں کے خلاف ’مسلم دنیا‘ کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی واضح کوششیں شروع کی گئی تھیں۔

ڈی ڈبلیو: نازیوں کی پالیسیاں مسلمانوں کو دوست بنانے کا باعث کیسے بنیں؟

ڈیوڈ موٹیڈیل: جنگ زدہ علاقوں میں نازیوں نے بڑے پیمانے پر مذہبی پالیسیاں متعارف کرائیں اور پروپیگنڈا  کرتے ہوئے نازی حکومت نے خود کو اسلام کی سرپرست حکومت ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ انیس سو اکتالیس کے آغاز میں نازی فوج نے اسلام کے حوالے سے ایک ’ملٹری ہینڈ بُک‘ جاری کی تھی، جس میں نازی فوجیوں کو مسلم علاقوں میں’ اسلام کے مطابق رویہ‘ اختیار کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ مشرقی محاذ پر نازی قابضوں نے ان مساجد، دعائیہ ہالز اور مدرسوں کی تعمیر نو کے احکامات دیے، جو ماسکو نے تباہ کر دیے تھے۔ سوویت حکمرانوں کو کمزور کرنے کے لیے مسلمانوں کی مذہبی رسومات اور تقریبات کے دوبارہ انعقاد پر زور دیا گیا۔ جرمن حکام نے مسلم رہنماؤں کو ساتھ ملانے کے لیے خصوصی کوششیں کیں۔ مشرقی علاقوں، بلقان اور شمالی افریقہ میں مسلمانوں کو متحرک کرنے کے لیے مذہبی بیانات اور الفاظ استعمال کیے گئے۔ انہوں نے سیاسی مقاصد کے لیے جہاد پر مبنی قرآنی آیات کا استعمال بھی کیا۔

سن انیس سو اکتالیس سے نازی حکومت نے ہزاروں مسلمانوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ ’جرمن خون‘ ضائع نہ ہو۔ مسلمان فوجیوں نے تمام محاذوں پر جنگ لڑی۔ جرمن فوج نے ان مسلمانوں کو مذہبی آزادیاں بھی دیں۔ مثال کے طور پر انہیں جانور ذبح کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اس سے پہلے سن انیس سو تینتیس میں سامیت دشمنی کی بنیاد پر بنائے جانے والے ہٹلر حکومت کے جانوروں کے تحفظ کے قانون کے تحت ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

ڈی ڈبلیو: بڑے پیمانے پر ایسا بھی سوچا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے نازی حکومت کا ساتھ سامیت مخالف مشترکہ جذبات کی وجہ سے دیا تھا۔ ایسی قیاس آرائیوں کے بارے میں آپ کیا بتا سکتے ہیں؟

ڈیوڈ موٹیڈیل: جرمنوں کی طرف سے اس پالیسی کے پیچھے ان کے اسٹریٹیجک مفادات تھے۔ ان کے پروپیگنڈا میں خاص طور پر عرب دنیا میں سامیت مخالف موضوعات کو خاص اہمیت حاصل تھی۔ فلسطین سے ہجرت کرنے والے یہودیوں پر کیے گئے حملوں میں اکثر سامیت مخالف جرمن پروپیگنڈے کا کردار ہوتا تھا۔ اس وقت یہ موضوع عرب سیاست میں اہمیت اختیار کر چکا تھا۔

Deutschland Berlin Adolf Hitler Großmufti von Jerusalem Amin al Husseini
یروشلم کے مفتی ہٹلر کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa/akg-images

دوسری طرف تمام مسلمانوں کو ایک ہی خانے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ نازی حکومت کے کچھ مسلمان اتحادی، جیسے کہ یروشلم کے مشہور مفتی نازیوں کی طرح ہی سامیت مخالف تھے۔ جنگ زدہ بلقان، شمالی افریقہ اور مشرقی علاقوں میں صورتحال کچھ زیادہ پیچیدہ تھی۔ ان میں سے بہت سے علاقوں میں صدیوں سے یہودی اور مسلمان ایک ساتھ آباد تھے اور بعض اوقات تو مسلمانوں نے اپنے ہمسائے میں رہنے والے یہودیوں کی مدد بھی کی تھی، مثال کے طور پر انہیں نازی جرمنوں سے چھپایا تھا۔

ڈی ڈبلیو: نازی حکومت مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی اور مسلم رہنماؤں کو نازی حکمرانوں سے کیا امیدیں تھیں؟

ڈیوڈ موٹیڈیل: نازیوں کا اسلام کے ساتھ اتحاد صرف اس وجہ سے نہیں تھا کہ مسلم آبادی والے علاقے جنگ کا حصہ بن گئے تھے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ انیس سو اکتالیس اور بیالیس میں جرمنی کی فوجی صورتحال بری طرح خراب ہو گئی تھی۔ جرمن فوج انتہائی دباؤ میں تھی اور برلن میں منصوبہ سازوں نے وسیع جنگی اتحاد کا سوچنا شروع کر دیا تھا۔ پھر اس پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی آبادی والے علاقوں کو آزاد کرانے کے لیے وہاں کی آبادی کو ہٹلر کی حمایت میں لڑنے کے لیے متحرک کیا گیا تھا۔

نازیوں کے ساتھ مل جانے والے بہت سے ملسمانوں کے لیے ان کے اس اقدام کی کئی عملی وجوہات بھی تھیں۔ وہ سوچتے تھے کہ سن انیس سو اکتالیس اور بیالیس میں جرمنی فاتح رہا ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ انہیں امید تھی کہ نازی ان کی آزادی میں کردار ادا کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر برطانوی سامراج کی حکمرانی سے آزادی میں۔ ان فوجیوں کے اہداف بہت مختلف تھے۔ یقیناﹰ کچھ بھرتیاں مذہبی نفرت اور نظریاتی بنیاد پر بھی تھیں، لیکن مجموعی طور پر ایسا نہیں کہا جا سکتا۔

ڈی ڈبلیو: کیا نازی واقعی اسلام کو مثبت دیکھتے تھے یا پھر مسلمانوں کو محض اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا؟

ڈیوڈ موٹیڈیل: مجموعی طور پر میرے خیال میں مسلمانوں کو نازیوں نے اپنے مقاصد ہی کے لیے استعمال کیا۔ نازیوں کی اسلام سے متعلق پالیسیاں عملیت پسندانہ تھیں۔ نازیوں کے کئی سرکردہ رہنماؤں نے، جن میں اڈولف ہٹلر اور ہائنرش ہِملر بھی شامل ہیں، بار بار اسلام کے لیے اپنی طرف سے احترام کا اظہار کیا۔ جب بھی ہٹلر نے کیتھولک چرچ کی مذمت کی، تو اس کا باقاعدگی سے موازنہ اسلام کے ساتھ کیا گیا۔ جب بھی ہٹلر نے کیتھولزم کو کمزور اور غیر مؤثر قرار دیا، تو اسلام کی تعریف کرتے ہوئے اسے مضبوط، جارحانہ اور حربی قرار دیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر یہ ایک اسٹریٹیجی تھی، نہ کہ کوئی نظریاتی قربت یا وابستگی۔

 

ڈاکٹر ڈیوڈ موٹیڈیل برطانوی دارالحکومت کے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں بین الاقوامی تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کا زیادہ تر کام جدید یورپ اور اس کے دنیا کے ساتھ روابط کے حوالے سے ہے۔ ایک مؤرخ کے طور پر انہیں ان کے کام کی وجہ سے کئی اہم انعامات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔