1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نجمہ کا مشن، خواتین کے لیے ہنر کا ہتھیار

دانش بابر، پشاور29 اپریل 2016

پاکستان کے شورش زدہ علاقے سوات سے تعلق رکھنے والی 45 سالہ نجمہ رانی نے اپنے علاقے کی بچیوں اور خواتین کو فنی تعلیم سے آراستہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/1IeqX
نجمہ رانی ۔ مقامی ہیرو

نجمہ رانی گزشتہ قریب دس سال سے سوات بھر کی خواتین کو مفت دستکاری، سلائی اور کڑھائی کی تربیت دے رہی ہیں۔ ان کے بقول، جس طرح تعلیم کو زیور سمجھا جاتا ہے اسی طرح ہنر خواتین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ وہ خواتین کو درس دیتی ہیں کہ مشکل حالات میں کوئی بھی عورت پریشان ہونے اور رونے دھونے کی بجائے آگے بڑھ کر حالات کو سنبھالے۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نجمہ رانی کا کہا تھا کہ سال 2005 میں ان کے ساتھ پیش آنے والے ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد انہوں نے خواتین کو ہنر سیکھنے کی ترغیب دینا شروع کی، تاکہ وہ مشکل حالات میں اپنے خاندان کی کفیل بن سکیں اورکسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں: ’’وہ میری زندگی کا کٹھن ترین دن تھا، جب میرے میاں نے مجھے تین بچوں سمیت چھوڑ دیا۔ طلاق کے بعد بچوں اور بیمار ماں کا واحد سہارا بننا میرے لیے کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ لیکن ایک ہنرمند خاتون ہوتے ہوئے میں نے تمام تر مشکلات پر جلد قابو پالیا۔‘‘

نجمہ کے مطابق انہوں نے بچپن میں سلائی کا کام سیکھا تھا لہذا انہوں نے اس ہنر کو اپنی ڈھال بنا لیا اور محلے کے لوگوں کے لیے ’سلائی بُنائی‘ کا کام کر کے اپنے گھر کا چولہا جلاتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس دور میں ان کا یہ ہنر ہی ان کا واحد سہارا تھا: ’’میں سوچتی ہوں کہ اگر مجھے یہ فن نہ آتا، تو شاید آج نہ میں اس مقام پر ہوتی اور نہ ہی میرے بچے پڑھ لکھ رہے ہوتے۔‘‘

نجمہ رانی اب تک 16 ہزار بچیوں اور خواتین کو عملی دستکاری کی تعلیم دے چکی ہیں
نجمہ رانی اب تک 16 ہزار بچیوں اور خواتین کو عملی دستکاری کی تعلیم دے چکی ہیںتصویر: DW/D.Babar

فنی تعلیم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور دوسری خواتین کو کسی ناخوشگوار آفت سے بچانے کی غرض سے نجمہ نے گھر پر ہی محلے کی بچیوں اور خواتین کو دستکاری سکھانے کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں انہوں نے اپنے پاس جمع شدہ رقم سے 2006 میں چار سلائی مشین خریدیں، جس سے انہوں نے اسی سال اپنے علاقے کی پندرہ خواتین کو مفت ٹریننگ دی۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری یہ کوشش ہے، کہ جس مشکل سے میں گزری ہوں، کوئی بھی عورت اس اذیت سے نہ گزرے۔‘‘

ان کے کام اور مشن کو دیکھتے ہوئے ایک فلاحی ادارے Helping Hands نے ان کو 2006ء ہی میں چھ سلائی مشینیں فراہم کیں جن کی بدولت اگلے تین ماہ میں انہوں تیس کے قریب بچیوں کو کپڑے سینے کے ہنر سے آراستہ کیا۔

نجمہ اس دوران مختلف دستکاری اداروں کے تربیتی پروگراموں میں بھی حصہ لیتی رہیں اور وہاں سے حاصل کردہ معلومات اور جدید ہنر اپنے شاگردوں میں مسلسل منتقل کرتی رہیں۔ نجمہ کے مطابق تاحال انہوں نے کم وبیش 16 ہزار بچیوں اور خواتین کو عملی دستکاری کی تعلیم دی ہے۔ وہ اپنے دستکاری سنٹر میں کپڑوں کی سلائی کٹائی کے علاوہ، کڑھائی، اون سے سویٹر بنانا، سواتی چادر کی گلکاری اورکشیدہ کاری کے ہنر سکھاتی ہیں۔ نجمہ اپنے گھر پر خواتین کو تربیت دینے کے علاوہ چند دستکاری کے اداروں میں ماسٹر ٹرینر کی حیثیت سے کام بھی کرتی ہیں۔

میری یہ کوشش ہے، کہ جس مشکل سے میں گزری ہوں، کوئی بھی عورت اس اذیت سے نہ گزرے، نجمہ رانی
میری یہ کوشش ہے، کہ جس مشکل سے میں گزری ہوں، کوئی بھی عورت اس اذیت سے نہ گزرے، نجمہ رانیتصویر: DW/D.Babar

نجمہ کے مشن اور ارادوں کے بارے میں عورتوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے ادارے ’’خویندو کور‘‘ کی ایک اعلٰی عہدہ دار انیلہ تاجک کہتی ہیں، ’’نجمہ ایک فرنٹ لائن ہیرو ہے، وہ ان تمام خواتین کے لیے مثال ہیں جو مشکل حالات میں گھبرا کر ہمت چھوڑ جاتی ہیں۔‘‘ انیلہ مزید کہتی ہیں، ’’بغیر کسی لالچ کے نجمہ اصلی معنوں میں علم پھیلا رہی ہیں، ان کی یہ کوشش ہے کہ کوئی بھی عورت کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے۔‘‘

مینگورہ شہر کی رہائشی بیس سالہ شمیم کہتی ہیں کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے نجمہ کے گھر میں دستکاری سیکھ رہی ہیں۔ ان کے مطابق، ’’مجھے سلائی کے بارے میں کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ تین ماہ کے عرصے میں اب میں بہتر طور پر کپڑوں کی کٹائی اور سلائی کر سکتی ہوں۔‘‘ شمیم کہتی ہیں کہ ان کے گھروالوں کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے، جس سے وہ تعلیم مکمل کر سکتیں۔ ان کے بقول، ’’یہاں سے مفت دستکاری کی تربیت حاصل کرنے کے بعد میں گھر پر یہ کام جاری رکھوں گی اور گھر کے اخراجات میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹاؤں گی۔‘‘