1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نفرتوں کی جنگ میں لاؤڈ اسپیکر بھی مسلمان ہو گیا!

8 مئی 2022

مذہبی مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا معاملہ بھارت ميں ان دنوں بحث کا موضوع بن چکا ہے۔ پریشان کن بات البتہ یہ ہے چند عناصر اس کی آڑ میں ایک مذہبی اقلیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Axn6
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

چند برس قبل جب میں نئی دہلی میں رہائش کے ليے فلیٹ خریدنے کی تگ و دو کر رہی تھی اور کئی اسٹیٹ ایجنٹوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، تو معلوم ہوا کہ شہر میں جو مکانات عبادت گاہوں سے متصل ہیں، ان کی قیمتیں دیگر املاک کی نسبت کم ہوتی ہیں۔ نئی دہلی جیسے گنجان آباد شہر میں جہاں املاک کا حساب گزوں میں ہوتا ہے، یہ میرے ليے اچنبھے کی بات تھی۔ گو کہ اسٹیٹ ایجنٹ یہ راز اپنے سینوں میں ہی رکھتے ہیں مگر میری صحافتی رگ اس معاملے کے تہہ تک جانے کے ليے پھڑک اٹھی۔

سکھ ہونے کی وجہ سے میرے اہل خانہ کی خواہش تھی کہ گوردوارے کے پاس مکان ليا جائے۔ معلوم ہوا کہ گوردوارے کے قریب مکان کی قیمت کے کم ہونے کا سبب یہ ہے کہ گرنتھی صاحب آدھی رات کے بعد سے ہی اٹھ کر مائک کے سامنے ٹیپ ریکارڈر رکھتے ہیں اور بھاری بھرکم لاؤڈ اسپیکروں سے پوری آبادی کو گربانی کا پاٹھ صبح ہونے تک سناتے ہیں۔ مگر خود ٹیپ ریکارڈر اور مائک کا سوئچ آن کرنے کے بعد سو جاتے ہیں۔ اسپیکر تو باہر کی دنیا کو پاٹھ سناتا ہے اور وہ خود اندر اس سے محفوظ لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ ان کی اس حرکت کی وجہ سے اس گوردوارے کے آس پاس املاک کی قیمیتیں کریش کر گئی تھیں۔ کوئی بھی بر ضا و رغبت وہاں رہنے کے ليے تیار نہیں تھا۔

یہ صرف ایک گوردوارے کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ میرے ایک سینئر کولیگ جو مسلمان ہیں، دیر رات گئے اخبار کے ایڈیشن سے فارغ ہونے کے بعد رمضان کے دنوں میں جنوبی دہلی میں واقع اپنے گھر وارد ہوتے تھے۔ تو سحری سے قبل چند گھنٹے سونے کے ليے لیٹ ہی جاتے تھے کہ پاس کی مسجد سے کوئی مولوی صاحب روزہ داروں کو جگانے کے ليے اسپیکر پر حمد و نعت کا سلسلہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع کرتے تھے۔ میرے واقف کا مکان تقریباً ہندو اور مسلمان علاقوں کی بارڈر پر تھا۔ ان کے ہندو مکان مالک نے بھی شکایت کی تھی کہ پاس کی مسلمان لولکٹی کے رات بھر کے شور شرابہ کی وجہ سے ان کے بچے سو نہیں پاتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اسکول جانے کے ليے صبح نہیں جاگ پاتے۔ خود ان کا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے جب مولوی صاحب سے رابطہ کیا اور ان کو بتایا کہ وہ سحری شروع ہونے سے چند منٹ قبل روزہ داروں کو جگایا کریں اور آدھی رات سے اعلانات کا سلسلہ بند کریں، تو ان کاجواب تھا، ''ہم تو صرف رمضان میں ہی رات کو اسپیکر استعمال کرتے ہیں۔ ہندو تو پورا سال اسپیکروں کے ذریعے ناک میں دم کر دیتے ہيں۔‘‘ یعنی مسابقت میں وہ اب ہندوؤں سے بھر پور بدلا لے رہے تھے۔

دہلی میں اپنے ابتدائی سالوں کے دوران میں پرانے راجندر نگر نامی علاقے میں رہتی تھی۔ اس علاقے میں سول سروسز کی تیاری کرنے والوں کے لیے کچھ بہترین کوچنگ سینٹرز ہیں۔ دہلی کے سب سے بڑے ہسپتالوں میں سے ایک، سر گنگا رام ہسپتال بھی اسی علاقے میں ہے۔ علاقے کے تقریباً ہر گھر نے اپنے گھر کا ایک حصہ ان طلبا یا نرسوں کو کرایہ پر دے رکھا تھا جو وہاں پڑھنے یا کام کرنے آتے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ کس طرح یہ طالب علم اور ہسپتال کی نرسیں مندر یا گرودوارے کے قریب مکان کرائے پر نہ لینے کو ترجیح دیتے تھے۔ رات گئے تک جاگنے والے طلباء اور رات کی ڈیوٹی کے بعد واپس آنے والی نرسوں کے لیے صبح سویرے مندر کی گھنٹیاں اور لاؤڈ اسپیکر پر زوروں سے بھجن بھجنے کی آواز اور گرودواروں سے گروبانی کا پاٹھ ان کے ليے زیادہ ہی تکلیف دہ ہوتے تھے۔ یہ طلباء اور نرسیں مندر یا گوردوارے کے خلاف نہیں تھیں، بلکہ ان اداروں کی طرف سے عبادات کے وقت استعمال کیے جانے والے لاؤڈ اسپیکر کی آوازوں کی وجہ سے دقت محسوس کرتے تھے۔

لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے صوتی آلودگی پھیلانا کسی ایک مذہب کا خاصا نہیں ہے۔ مگر کیا کیا جائے، یہ معاملہ بھی بھارت میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم ہو گیا ہے۔ جنونی ہندو فرقہ پرست اس وقت مساجد میں اذان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب ان کو کون بتائے کہ اپنے دامن کے اندر بھی تو جھانک کر دیکھو۔ یہ اذان تو بس چند منٹ ہی ہوتی ہے۔ ہر شام جب آفس یا مزدوری کرنے کے بعد تھکے ہارے لوگ گھروں کو آ کر بس تھکن مٹانا چاہتے ہیں، تو علاقے کے مندر کا لاؤڈ اسپیکر جاگ جاتا ہے اور رات گئے تک آرتی براہ راست گھروں میں نشر ہوتی رہتی ہے۔ رام نومی یا دیگر جلوسوں میں کس طرح ڈی جے اونچی آوازوں میں بجائے جاتے ہیں اور اگر اس جلوس کو کسی مسلم علاقے سے گزرنا ہے، تو وہاں ڈی جے کی آواز کچھ زیادہ ہی اونچی کی جاتی ہے۔ دسہرہ سے قبل تو ہر علاقے میں رامائن کے ڈرامے پوری رات بھر اسٹیج ہوتے ہیں۔

بھارت میں ہر مہینے کوئی نہ کوئی مذہبی تہوار ہوتا ہے۔ یہ تہوار کسی شادی بياہ کی تقريب سے کم نہیں ہوتے ہیں ۔ جنوری میں مکر سنکرانتی یا لوہڑی سے شروع ہو کر بسنت پنچمی، ہولی، رامنومی، بیساکھی، گنیش چترتھی، درگا پوجا، دیوالی اور متعدد دیگر دیوی دیوتاؤں کی سالگرہ منانے تک، ہندوستانی تہوار کیلنڈر میں ہر مہینے ہوتے ہیں۔ ہر گروہ تقریبات منانے میں دوسرے کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے۔ تقریب کی کامیابی کا پيمانہ یہ ہوتا ہے کہ کس نے کتنا ٹریفک جام کیا اور کس قدر لوگوں کو تکلیف پہنچائی۔ کیونکہ جام ہونے اور گھر دیر سے پہنچے کی صورت میں ہی عام آدمی یہ پوچھتا پھرتا ہے کہ آج کون سا دن تھا۔

حیرت تو مجھے اس بات پر ہے کہ اس صوتی الودگی کو بھی مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول تیار کرنے کے ليے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ذاتی طور پر میں کسی بھی مذہبی ادارے کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے مکمل خلاف ہوں۔ مذہب اور خدا سے تعلق میرا ذاتی معاملہ ہے۔ میں کسی بھی مندر یا گرودوارے کے لاؤڈ اسپیکر سے بیدار ہونا پسند نہیں کرتی ہوں۔

اس تنازعے کے شروع ہونے کے چند دن بعد قبل ہی میں کشمیر میں رہنے والے ایک دوست سے اس پر گفتگو کر رہی تھی۔ وہ ایک باعمل مسلمان ہیں اور ان کے گھر کے قریب چار مساجد ہیں۔ انہوں نے مذاق میں بتایا کہ اذان کے وقت ایسا لگتا ہے کہ تمام مؤذن آپس میں مقابلہ کرتے ۔ پھر یہ چاروں مساجد پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے الگ الگ اذانیں دیتی ہیں۔ یعنی اگر سلسلہ ظہر کی اذان کا ہے، تو عصر تک جاری رہے گا، اور اگر عصر کی نماز کا بلاوا ہے تو مغرب تک اذانوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فجر کے وقت تو لگتا ہے مسابقت کا دور چل رہا ہے۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ ترکی کے دارلحکومت انقرہ شہر جس کی آباد ی تقریباً ساٹھ لاکھ ہے، بس ایک ہی وقت پورے شہر میں ایک ہی اذان دی جاتی ہے اور پھر مساجد نماز و خطبہ کے ليے اندورنی لاوڈ اسپیکر استعمال کرتے ہیں۔

یہ بہت اچھی بات ہے کہ مذہبی مقامات کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا معاملہ بحث کا موضوع بن گیا ہے۔ لیکن پریشان کن بات تو یہ ہے حکومت کی شہہ پر چند عناصر اس کی آڑ میں ایک مذہبی اقلیت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہيے کہ قانون بنا کر سبھی مذہبی اداروں پر لازم قرار دیں کہ تقریبات، پاٹھ، خطبوں وغیرہ کے ليے بس اندرونی لاوڈ اسپیکر ہی استعمال کیا کریں۔

ممبئی میں مقیم ڈاکٹر مہیش بیڈیکر، جو صوتی آلودگی کے سرگرم کارکن بھی ہیں، کہتے ہیں، ’’یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ لیکن کوئی سیاسی جماعت اس معاملے کو حل کرنے کی خواہش نہیں رکھتی۔ صحت کے خدشات کو دیکھنے کے بجائے سیاسی جماعتیں اس معاملے پر صرف سیاست کر رہی ہیں جبکہ عوام اس کا خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہے‘‘۔

مشہور مزاحیہ شاعر ساغر خیامی نے کیا خوب کہا تھا: 

نفرتوں کی جنگ میں دیکھوتوکیا کیا کھو گیا

سبزیاں ہندو ہوئیں، بکرا مسلماں ہوگیا

اگر وہ آج زندہ ہوتے، تو دیکھتے کہ کیسے لاؤڈ اسپیکر بھی مسلمان ہوگیا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔