1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل امن انعام: ایدھی کی نامزدگی کی کوششیں جاری

عاصمہ علی8 ستمبر 2015

رواں سال بھی پاکستان کی سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کروانے کے سلسلے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئٹر وغیرہ پر کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GSe9
Abdul Sattar Edhi Local Heroes
تصویر: Edhi Centre

پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی سماجی شخصیت عبدالستار ایدھی کا فلاحی کام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ان کے مداحوں کی ایک عرصے سے کوشش چلی آ رہی ہے کہ انہیں نوبل امن انعام دیا جائے۔ ان دنوں یہ کوششیں گزشتہ کئی برسوں کی طرح دوبارہ اپنے عروج پر ہیں۔

آن لائن ایکٹیوازم کی بین الاقوامی ویب سائٹ ’’چینج ڈاٹ او آر جی‘‘ کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ پاکستانی شخصیت عبدالستار ایدھی کے حق میں پٹیشن سائن کریں تاکہ انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا جا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم 75 ہزار افراد پٹیشن سائن کریں۔ اس مہم کا آغاز چند روز پہلے کیا گیا تھا لیکن انتہائی مختصر وقت میں ان کی نامزدگی کے حق میں (ابھی تک ) تقریباﹰ 73 ہزار سے زائد افراد ووٹ دے چکے ہیں۔

نوبل امن انعام کے لیے نامزدگیوں کی وصولی کا مرحلہ یکم ستمبر سے شروع ہو جاتا ہے جبکہ اس سلسلے میں ڈیڈ لائن فروری تک ہوتی ہے۔ مارچ سے مئی تک وصول ہونے والی نامزدگیوں کی ایک شارٹ لسٹ تیار کی جاتی ہے جبکہ کمیٹی کی طرف سے اکتوبر میں ان افراد کو چن لیا جاتا ہے، جنہیں یہ انعام دیا جانا ہوتا ہے۔ اسی طرح نوبل امن انعام دینے کی تقریب کا انعقاد دسمبر میں کیا جاتا ہے۔

سن 1951ء میں محض پانچ ہزار روپے کی قلیل رقم سے عبدالستار ایدھی نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا تھا، جو اب پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ بن چکا ہے۔ یہ زیادہ تر لوگوں کے دیے ہوئے عطیات سے چلتا ہے۔ پاکستان اور بیرون ملک اس ادارے کے تین سو پچہتر سینٹرز ہیں جو لوگوں کو چوبیس گھنٹے ہنگامی امداد مہیا کرتے ہیں۔

Abdul Sattar Edhi Local Heroes
87 سالہ ایدھی 1928ء میں انڈیا کی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے فلاحی کاموں کا آغاز انیس برس کی عمر سے شروع کر رکھا ہے۔تصویر: Edhi Centre

پورے پاکستان میں ہنگامی امداد کے علاوہ یہ ادارہ یتیم بچوں اور بے سہارا خواتین کی کفالت کے ساتھ ساتھ ایسے والدین، جن کی اولاد ان کو گھر سے نکال دیتی ہے، کو رہائش فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح سے ’ناجائز بچوں‘ کے لیے بھی ایدھی فاؤنڈیشن نے ملک بھر میں جگہ جگہ جھولے نصب کیے ہیں، جن پر لکھا ہوتا ہے کہ قتل نہ کریں جھولے میں ڈال دیں۔ ایسے بچوں کو نا صرف خوراک اور رہائش مہیا کی جاتی ہے بلکہ ان کی تعلیم و تر بیت کا بھی خاص خیال رکھا جا تا ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن نے ذہنی مریضوں کے لیے بھی سینٹرز بنا رکھے ہیں، جہاں ان کا علاج اچھے طریقے سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کی اٹھارہ سو سے زائد ایمبولینسیں، دو ہوائی جہ‍از،ایک ہیلی کاپٹر اور اٹھائیس کشتیاں کام کر رہی ہیں، جو کسی بھی نا خوشگوار واقعے کی صورت میں اپنی خدمات پیش کرتی ہیں۔ اس وقت کئی ہزار افراد ایدھی فاؤنڈیشن کی بدولت برسر روزگار بھی ہیں۔

Abdul Sattar Edhi Local Heroes
سن 1951ء میں محض پانچ ہزار روپے کی قلیل رقم سے عبدالستار ایدھی نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا تھا، جو اب پاکستان کا سب سے بڑا فلاحی ادارہ بن چکا ہےتصویر: Edhi Centre

ایدھی فاؤنڈیشن کے دفاتر امریکا، جاپان، متحدہ عرب امارات، کینیڈا اور برطانیہ میں بھی ہیں، جو بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں سے عطیات وصول کرتے ہیں۔ ملکی اور بین الا اقوامی سطح پر عبدالستار ایدھی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

87 سالہ ایدھی 1928ء میں انڈیا کی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے فلاحی کاموں کا آغاز انیس برس کی عمر سے شروع کر رکھا ہے۔ ان کی نظر میں سب انسان برابر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہوکر ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ ان کے سینٹرز کے دورازے سب کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ ان سب کاموں میں انہیں اپنی بیوی بلقیس ایدھی کا مکمل تعاون حاصل ہے اور اس کا اعتراف عبدالستار ایدھی بھی کرتے ہیں۔