1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل امن انعام کی تقریبِ تقسیم لیو شاؤبو کے بغیر ہی

10 دسمبر 2010

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں نوبل انعام برائے امن کی تقریبِ تقسیم منعقد ہوئی تاہم چینی منحرف لیو شاؤبو، جنہیں یہ انعام وصول کرنا تھا، وہ اِس تقریب سے غیر حاضر تھے کیونکہ اُنہیں ملک سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

https://p.dw.com/p/QVLN
نوبل امن انعام کی تقریبتصویر: AP

اوسلو کے مقامی وقت کے مطابق سہ پہر منعقدہ اِس تقریب میں درجنوں ممالک کے سفیر، ناروے کے شاہی خاندان کے ارکان اور کئی دیگر معزز شخصیات شریک تھیں لیکن 54 سالہ چینی منحرف لیو شاؤبو کی کرسی کو علامتی طور پر خالی رکھا گیا تھا۔ چینی حکام نے اِس سابق پروفیسر کی اہلیہ کو بھی انعام وصول کرنے کے لئے اوسلو کے سفر کی اجازت نہیں دی اور اُنہیں اُن کے گھر پر ہی نظر بند کر دیا۔

نوبل انعام کی 100 برس سے زیادہ کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ نہ تو انعام پانے والی شخیت اپنا انعام وصول کرنے کے لئے موجود تھی اور نہ ہی اُس کا کوئی نمائندہ۔ اِس سے پہلے ایسا صرف ایک بار یعنی 1936ء میں ہوا تھا، جب جرمن صحافی اور عدم تشدد کے حامی کارل فان اوسی ئیٹسکی نازیوں کے ایک اذیتی کیمپ میں قید تھے اور اپنا انعام وصول کرنے نہ جا سکے تھے۔

Vergabe des Friedensnobelpreis an Liu Xiaobo Oslo NO FLASH
ناروے کی نوبل کمیٹی کے چیئرمین تھوربیورن جاگ لینڈ نوبل امن انعام کی تقریب میں شریک ہیں، پس منظر میں لیو شاؤبو کی تصویر نظر آ رہی ہےتصویر: AP

تقریب میں نوبل کمیٹی کے چیئرمین تھور بیورن جاگ لینڈ نے کہا کہ لیو شاؤبو کسی غلط اقدام کے مرتکب نہیں ہوئے اور بیجنگ حکومت کو انہیں رہا کر دینا چاہئے۔ اُنہوں نے کہا کہ لیو شاؤبو نے محض اپنے شہری حقوق کا استعمال کیا ہے۔ جاگ لینڈ نے کہا:’’ہمیں افسوس ہے کہ انعام پانے والی شخصیت یہاں موجود نہیں ہے۔ وہ شمالی چین کی ایک جیل میں قیدِ تنہائی میں ہے۔ ہمارے ساتھ اُس کی اہلیہ یا اُس کا کوئی قریبی عزیز بھی نہیں ہے چنانچہ یہاں کوئی میڈل یا ڈپلومہ نہیں دیا جائے گا۔ یہی چیز واضح کرتی ہے کہ یہ ایوارڈ کتنا مناسب اور ضروری تھا۔‘‘

Vergabe des Friedensnobelpreis an Liu Xiaobo Oslo NO FLASH
امن انعام کی تقریب میں اسٹیج پر موجود شخصیات کے درمیان لیو شاؤبو کی خالی کرسی نظر آ رہی ہےتصویر: AP

واضح رہے کہ شاؤبو کو دسمبر سن 2009 ء میں تخریب کاری کے الزامات کے تحت گیارہ سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ وہ ’چارٹر آٹھ‘ نامی اُس منشور کی تیاری میں شامل تھے، جس میں چین میں سیاسی اصلاحات کے ساتھ ساتھ زیادہ حقوق پر بھی زور دیا گیا تھا اور یہ چارٹر انٹرنیٹ کے ذریعے تیزی سے پھیل گیا تھا۔ اب تک تقریباً بارہ ہزار افراد اِس چارٹر پر دستخط کر چکے ہیں۔

لیو شاؤبو کہتے ہیں:’’چار جون 1989ء کو بہت سے بے گناہوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ زندہ بچ جانے والے کے طور پر میرے لئے لازم ہے کہ مَیں مرنے والوں اور انصاف کے لئے جدوجہد کروں۔‘‘

چین اور پاکستان سمیت سولہ ملکوں نے آج انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اوسلو میں منعقدہ اِس تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ آٹھ اکتوبر کو اِس انعام کا اعلان ہونے کے بعد سے بیجنگ حکومت اس تقریب میں شریک ہونے والے ممالک کو نتائج کی دھمکی دے رہی تھی۔

کیمسٹری، فزکس، ادب ا ور معاشیات کے شعبوں کے نوبل انعام آج ہی دیر گئے سٹاک ہولم میں منعقدہ ایک الگ تقریب میں دئے جا رہے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں