1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل انعام یافتہ ادیب : ہیرالڈ پِنٹر کی رحلت

28 دسمبر 2008

بڑا ادیب عالمی میراث تصور کیا جاتا ہے۔ ہیرالڈ پنٹر بھی اُسی میراث کا حصہ ہیں۔ اب وہ اِس دنیا میں نہیں رہے لیکن اُن کی شاندار تحریریں ہمیشہ اُن کا نام زندہ جاوید رکھیں گی۔

https://p.dw.com/p/GNAZ
ہیرالڈ پنٹر کی ایک یاد گار تصویرتصویر: AP

بیسویں صدی کے عظیم ڈرامہ نویسوں میں شمار ہونے والے ہیرالڈ پِنٹر اب اِس دنیا میں نہیں رہے۔ سن دو ہزار پانچ میں ادب کا معتبر ترین انعام، نوبل پرائیز حاصل کرنے والے برطانوی ادیب سرطان کے عارضے میں مبتلا تھے۔ وہ کئی برسوں سے گلے میں پیدا شدہ سرطانی گلٹیوں کے خلاف جدو جہد کر رہے تھے۔ بالآخر وہ تک گئے اور اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

اُن کے معرکتہ اُلآرا تخلیقات میں، گھر واپسی یا ہوم کمنگ، غداری یا بِیٹرےایل، نگران یا دی کیئر ٹیکر، سالگرہ پارٹی یا برتھ ڈے پارٹی کو بہت شہرت حاصل ہے۔ عالمی شہرت کے ہیرالڈ پیٹر ہمہ جہت شخصیت تھے ۔ وہ بنیادی طور پر خواب گر یعنی شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ نوجوانی میں شاعری کرنے والے پِنٹر نے بعد میں اداکاری، ہدائیتکاری، سکرین رائٹنگ میڈ بھی اپنے جہر دکھائے۔ اُن کو سیاسی میدان کے مردِ مجاہد بھی خیال کیا جاتا تھا۔

Harold Pinter 2005
ہیرالڈ پنٹر، اپنے گھر لندن میںتصویر: picture-alliance/ dpa

برطانوی ڈرامہ نویس کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ وہ پیچیدہ پلاٹ کی بنت انتہائی آسانی یا سہل نگاری سے کرتے تھے کہ وہ قاری کی سوچ پر بوجھ کا شائبہ بھی اترنے نہیں پڑتا تھا۔ اُن کے کرداروں کے ڈائیلاگ آفاقی انداز میں ہوتے تھے اِسی لئے وہ مشرق کا سیاسی و سماجی و ثقافتی میدان ہو یا مغربی زندگی کا منظر نامہ، معتوب اور زندان خانوں میں پابند شخص یا بلند مرتبہ مقام پر بیٹھی کوئی شخصیت، سبھی بری آسانی اور روانی سے اُن کے مکالموں میں ڈھل جاتے تھے۔

پنٹر کے ڈراموں میں خاص طور سے وقفوں اور خاموشی کا استعمال اپنی معراج پر تھا۔ ادبی ناقدین ڈرامے کی جو مسلمہ تعریف بیان کرتے ہیں کہ اول تو ٹویجڈی یا المیہ نگاری ہر اور اُس کے زیور وقفہ اور خامش ہوتے چاہیں۔ پنٹر کے ڈراموں میں یہ کیفیت انتہائی شاندار طریقوں سے سموئی ملتی ہے۔

Literaturnobelpreis für Harold Pinter
لندن کے ہالینڈ پارک میں واقع اپنے گھر میں قائم لائبریری کے ساتھ آنجہانی ہیرالڈ پِنٹرتصویر: dpa

اُن کی زندگی میں جس طرح سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی تھی اُسی طور اُن کی تحریروں میں بھی سیاسی رنگ سرایت کر گیا تھا۔ اُن کو بائیں بازو کے دانشوروں اور مصنفین کی صف میں شاید اِسی وجہ سے کھڑا کیا جاتا ہے۔ وہ انسانی حقوق اور وقار کے علمبردار تھے نوبل انعام کے حصول کے بعد سے وہ نثر نگاری پر توجہ کم دے رہے تھے اب شاعری اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا۔

اُن کی تحریر کا خاص انداز جب بھی کسی اور ملک کے شاعر یا ڈرامہ نگار میں جھلکتا ہے تو مغربی دنیا کے ادبی ناقدین اِس کے لئے اُن کے نام سے جڑا استعارہ استعمال کرتے ہیں یعنی Pinteresque اور اکسفورڈ ڈکشنری نے اب اِس کو اسم توصیف کے زمرے میں ڈال دیا ہے۔

اپنے سیاسی رجحانات کی وجہ سے عراق پر امریکی فوج کشی کے بھی سخت مخالف تھے اور اِس کوbandit act یا راہزنی میں شمار کرتے تھے۔ وہ عوامی اجتماعات میں اِس کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے تھے اور امریکی خارجہ پالیسی کی سرجری وہ اپنے تند و تیر جملوں سے کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے وہ امریکی صدر بُش کے بھی کھلے مخالف تھے۔

ہیرالڈ پنٹر کو بعد از مرگ ساری دنیا سے خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے اُن کو عظیم ڈرامہ نویس کہا، چیک جمہوریہ کے سابق صدر Vaclav Havel کے نزدیک وہ انتہائی متاثر کن اور انسپائرنگ شخصیت تھے۔

ہیرالڈ پنٹر دس اکتوبر سن اُنیس سو تیس میں متوسط یہودی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔