1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نيتن ياہو کی عبوری سمجھوتے کی تجويز، فلسطينيوں کا انکار

28 دسمبر 2010

اسرائيلی وزير اعظم بینجمن نيتن ياہو نے پہلی بار اس امکان کا ذکر کيا ہے کہ فلسطينيوں کے ساتھ کوئی مستقل سمجھوتہ طے نہ پا سکنے کی صورت ميں ايک عبوری معاہدہ کيا جا سکتا ہے، جس ميں بڑے اختلافات کو دور ہی رکھا گيا ہو۔

https://p.dw.com/p/zqjX

اسرائيلی وزير اعظم بینجمن نيتن ياہو نے کہا ہے کہ اگر فلسطينيوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران اہم مسائل پر کوئی سمجھوتہ طے نہيں پاتا، تو پھر ايک عبوری سمجھوتے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ يہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے اس امکان کا ذکر کيا ہے۔ جب اُن سے اُن کے وزير خارجہ اويگدور ليبرمن کے اس بيان کے بارے ميں پوچھا گيا کہ بہترين حل يہ ہے کہ فلسطينيوں سے لمبی مدت کا ايک عبوری معاہدہ طے کر ليا جائے کيونکہ ايک مستقل سمجھوتہ ممکن نہيں، تو نيتن ياہو نے کہا کہ اگر يروشلم اور فلسطينی مہاجرين کی واپسی کے بارے ميں بات چيت ناکام ہو گئی تو پھر ايک عبوری معاہدہ ممکن ہے۔

NO FLASH Nahost Friedensgespräche in Washington
فلسطينی صدر عباس،امريکی وزير خارجہ کلنٹن اور نيتن ياہوتصویر: picture alliance/dpa

اسرائيل اور فلسطينيوں کے درميان امريکہ کی وساطت سے ہونے والے مذاکرات اُس وقت سے تعطل کا شکار ہيں، جب اسرائيل نے دريائے اردن کے مغربی کنارے پر يہودی بستيوں کی تعمير پر عارضی بندش کی مدت ميں توسيع سے انکار کرديا تھا۔

نيتن ياہو نے کہا کہ وہ يہ جانتے ہيں کہ فلسطينی ايک عبوری يا عارضی سمجھوتے کے لئے بات چيت پر راضی نہيں ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا، ’اگر ہم نے فلسطينيوں سے پہلے ہی سے يہ کہہ ديا کہ آئيں، عبوری سمجھوتے پر بات کرتے ہيں تو يہ نہيں کہا جا سکتا کہ وہ اس پر راضی ہو جائيں گے، ليکن ايک سفارتی کوشش کے نتيجے ميں ايسا ممکن ہے۔‘ نيتن ياہو نے يہ بھی کہا کہ اگر فلسطينی اسرائيل کو ايک يہودی رياست کے طور پر تسليم کر ليں تو وہ اپنی مخلوط حکومت ميں شامل حليفوں کی ناراضگی کی پرواہ کئے بغير ايک امن معاہدے کے حصول کے لئے سب کچھ کرنے پر تيار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اسے اسرائيلی عوام کے سامنے پيش کريں گے اور عوام کی اکثريت اس کی حمايت کرے گی

Historische Nahostgespräche Israelische Siedlung im Westjordanland NO FLASH
يروشلم کے مضافات ميں ايک يہودی بستیتصویر: AP

فلسطينی صدر محمود عباس کے ايک ترجمان نے عبوری سمجھوتے کو قطعی طور پر رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ يروشلم اور فلسطينی مہاجرين کی واپسی کے مسائل کا حل کيا جانا ضروری ہے اور اسے بعد کے کسی مرحلے تک مؤخر نہيں کيا جا سکتا۔ ترجمان نے کہا کہ يہ عبوری حل فلسطينيوں کے لئے ناقابل قبول ہے کيونکہ اس ميں يروشلم اور مہاجرين دو اہم مسائل کوشامل نہيں کيا جائے گا۔ يروشلم انتہائی اہم ہے کيونکہ اسے مستقبل کی فلسطينی رياست کا دارالحکومت بنناہے۔ صدر محمود عباس کے ترجمان نے يہ بھی کہا کہ فلسطينی رياست کے بارے ميں ايسے مذاکرات ميں شرکت نہيں کی جا سکتی، جن ميں اس رياست کی سرحدوں ہی کا تعين نہ کيا جائے۔

واشنگٹن ميں امريکی وزارت خارجہ کے ايک ترجمان نے نيتن ياہو کے بيان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امريکہ تمام بنيادی مسائل پراسرائيل اور فلسطينيوں کے درميان سمجھوتہ کرانے کی بھر پور کوششيں جاری رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ: شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں