1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نہ دکھائی دینے والے زخم کس طرح بھرے جاتے ہیں؟

عدنان اسحاق4 اپریل 2016

بم دھماکے، فائرنگ، لاشیں، خوفزدہ مناظر کس طرح انسان کی نفسیات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور خاص طور پر ان افراد کی، جو ایسے واقعات سے براہ راست متاثر ہوں۔ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کس طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں؟

https://p.dw.com/p/1IPAB
تصویر: SHAH MARAI/AFP/Getty Images

اندریاس مؤلر سائرن گزشتہ بائیس برسوں سے کلیسا کی جانب سے ہنگامی صورتحال کے شکار افراد کی نفسیاتی اور روحانی رہنمائی کرتے ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد بھی انہوں نے متاثرین کو ہر طرح کا تعاون مہیا کیا۔ اس تناظر میں انہوں نے ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو سب سے پہلے اُسے اُس کے ہونے یا موجودگی کا احساس دلانا ہونا ہوتا ہے، ’’ایسے کسی واقعے میں بچ جانے والے فرد پر یہ واضح کرنا ضروری ہوتا ہے کہ جس خطرے کا وہ شکار ہوا تھا وہ اب ٹل چکا ہے اور وہ اب محفوظ ہے۔ پیرس حملوں کے بعد میں نے ایک پارک میں متاثرہ افراد سے ملاقات کی کیونکہ یہ افراد کسی کیفے میں مجھ سے ملنے سے کترا رہے تھے۔‘‘ پیرس میں دہشت گردوں نے ایک کیفے کو بھی نشانہ بنایا تھا۔

Bildergalerie Psychisch Kranke in Afghanistan Mutter und Kind
تصویر: FARZANA WAHIDY/AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو نے ان سے پوچھا کہ کسی واقعے کے فوری بعد کے دنوں میں وہ کس طرح سے کام کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ متاثرہ افراد کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ رونما ہونے والا واقعہ اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ ’’ اس کے لیے ہم ایسے افراد کو تحفظ کا یقین دلاتے ہیں۔ ہم انہیں بات چیت کا موقع فراہم کرتے ہیں اور پولیس کی طرح ان سے پوچھ گچھ نہیں کرتے۔ بھروسہ قائم ہونے کے بعد متاثرہ افراد ہمیں اپنی آپ بیتی سناتے ہیں اور اس دوران ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں، جو شاید وہ اپنے اہل خانہ کو بھی بتانا نہ پسند کریں۔

مؤلر سائرن کے مطابق دہشت گردانہ حملوں سے متاثرہ افراد کے ذہنی دباؤ کو کم کرنا واقعی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کیونکہ ذرائع ابلاغ میں بار بار اس واقعے کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ’’بچ جانے والے زیادہ تر افراد کو اس بات میں دلچسپی ہوتی ہے کہ یہ واقعہ کیسے اور کب رونما ہوا تھا۔‘‘ سائرن کے بقول وہ متاثرہ افراد کو ایک ایسی کشتی کی تصویر دکھاتے ہیں، جسے دو چپوؤں سے چلایا جا رہا ہے۔ ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اچھا ہے کہ رونما ہونے والے واقعے کو یاد رکھتے ہوئے اس پر کام کیا جائے جبکہ دوسرے چپو کا مطلب ہے کہ اس واقعے کو بھلا کر زندگی کو اچھے انداز سے آگے بڑھانے کے بارے میں سوچا جائے۔‘‘ اندریاس مؤلر سائرن کہتے ہیں کہ دونوں چپوؤں کو ایک ساتھ آگے بڑھانے سے ہی کشتی بھی سیدھے انداز میں آگے بڑھے گی اور نتیجہ حاصل ہو گا۔