1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیویارک شہر کی اگلی جنگ نمک کے خلاف

4 دسمبر 2015

پلاسٹک کی پلیٹوں، تمباکو نوشی اور زیادہ کیلوریز والے مشروبات کے بڑے گلاسوں کے بعد اب امریکی شہر نیویارک نے زیادہ نمک والے کھانوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ دوسری جانب شہری اس نئی پیشرفت پر سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HHcd
Frühstück Bildergalerie Deutschland EINSCHRÄNKUNG
تصویر: picture-alliance/dpa/Soili Jussila

نیویارک کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ اُس کے شہری اور اس شہر کی سیر کو آنے والے مہمان کم نمک والی خوراک کھائیں۔ انتظامیہ کی خواہش یہ ہے کہ آئندہ سے تمام ریستوراں اُن کھانوں پر خصوصی نشان لگائیں، جن میں زیادہ نمک استعمال کیا گیا ہو۔ ایسے میں سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا شہر کی انتظامیہ کہیں ایک بار پھر اپنی حدوں سے تو تجاوُز نہیں کر رہی۔

نیویارک شہر کی انتظامیہ کے خیال میں ہر بالغ فرد کو ایک دن میں اپنے کھانوں میں صرف 2.3 گرام نمک استعمال کرنا چاہیے یعنی اتنا نمک، جو چائے کے ایک چھوٹے چمچ میں سما جاتا ہے۔ بظاہر اتنا نمک بھی بہت زیادہ لگتا ہے لیکن دن بھر میں انسان جو مختلف طرح کی چیزیں کھاتا ہے، اُن میں استعممال کیا گیا نمک اکثر اس سے کہیں زیادہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایک امریکی شہری 2.3 گرام سے زیادہ یعنی اوسطاً تقریباً 3.4 گرام نمک استعمال کرتا ہے۔ واضح رہے کہ نمک کو دل اور دورانِ خون کی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ کہا جاتا ہے۔

Sel rose de l'Himalaya Rosa Salz Tibet
نیویارک کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ زیادہ نمک والے کھانوں کی نشاندہی ہوتصویر: Fotolia

نیویارک کے محکمہٴ صحت کے مطابق ’دوسری بیماریوں کے مقابلے میں دل اور دورانِ خون کی بیماریاں زیادہ تعداد میں امریکیوں کی جانیں لیتی ہیں‘۔ اسی لیے ایک خبردار کرنے والی مثلث کے اندر چھوٹے سائز کی نمک دانیوں والا نشان آئندہ ریستورانوں کے مینو کارڈ پر چھپا ہو گا اور اُنہیں کسی کھانے میں نمک کی زیادہ مقدار سے خبردار کرے گا۔ نیویارک میں یکم دسمبر سے اس نئے ضابطے کا اطلاق شروع ہو چکا ہے جبکہ یکم مارچ 2016ء سے خلاف ورزی کرنے پر باقاعدہ جرمانے بھی کیے جائیں گے۔

زیادہ نمک والے کھانوں سے خبردار نہ کرنے والے ریستورانوں کو دو سو ڈالر تک کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ بظاہر یہ جرمانہ بہت زیادہ بھی نہیں ہے تاہم پھر بھی نیویارک شہر کے کچھ حلقے، جن میں ریستورانوں کے مالکان بھی شامل ہیں، اس نئے ضابطے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

اس فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ شہر اپنی رواداری کے لیے مشہور ہے لیکن انتظامیہ پَے درپے جیسے فیصلے کر رہی ہے، وہ دنیا کے سامنے شہر کی کوئی اور ہی تصویر پیش کریں گے۔ پہلے پلاسٹک کی عارضی پلیٹیں ممنوع قرار پائیں۔ پھر زیادہ کیلوریز والے مشروبات کو بڑے گلاسوں میں پیش کرنے پر پابندی لگی اور پھر تمباکو نوشوں کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر دیا گیا۔

بہت سے شہری اس لیے بھی نیویارک کی انتظامیہ کے اس نئے ضابطے کو چیلنج کر رہے ہیں کیونکہ امریکی شہری اوسطاً اُس حد سے کم نمک استعمال کرتے ہیں، جو کہ عالمی ادارہٴ صحت نے مقرر کر رکھی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ حد پانچ گرام مقرر کر رکھی ہے جبکہ امریکی 3.4 گرام استعمال کرتے ہیں۔ جرمنی میں خواتین روزانہ اوسطاً آٹھ گرام نمک استعال کرتی ہیں جبکہ جرمن مردوں کے ہاں یہ مقدار دس گرام تک بھی چلی جاتی ہے۔ کیا ایسے میں امریکی واقعی زیادہ نمک استعمال کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔