1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیو کلیئر سکیورٹی سمٹ، عالمی رہنماؤں کا اقدامات کا مطالبہ

27 مارچ 2012

جنوبی کوریا میں ایٹمی سلامتی کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں شریک رہنماؤں نے منگل کو مطالبہ کیا کہ جوہری دہشت گردی کے خطرات پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر تعاون کیا جانا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/14Sfw
تصویر: picture-alliance/dpa

جنوبی کوریا کے دارالحکومت میں جاری اس سربراہی کانفرنس کا آج منگل کو دوسرا اور آخری دن ہے۔ اس کانفرنس میں 53 ملکوں کے رہنما شرکت کر رہے ہیں۔ کانفرنس کے دوسرے روز شرکاء سے خطاب کرنے والوں میں امریکی صدر باراک اوباما بھی شامل تھے۔

باراک اوباما نے کہا کہ ایٹمی دہشت گردی کا خطرہ آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ابھی تک بہت سے برے افراد خطرناک ایٹمی مادوں کی تلاش میں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں سے جوہری مادے ایسے افراد کے ہاتھوں میں پہنچ سکتے ہیں۔

Guido Westerwelle Nukleargipfel in Seoul Südkorea
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹرویلےتصویر: AP

امریکی صدر کے بقول کسی ایٹمی تباہی کے لیے بہت سے جوہری ہتھیار یا مادے درکار نہیں ہوں گے بلکہ ایسے تھوڑے سے مادے بھی لاکھوں معصوم انسانوں کی ہلاکت کا باعث بن سکتے ہیں۔ باراک اوباما کے مطابق دنیا کی سلامتی کا انحصار اس بات پر ہے کہ سیول کانفرنس میں شریک رہنما کیا فیصلے کرتے ہیں۔

دو سال پہلے یہ باراک اوباما کی سوچ ہی کا نتیجہ تھا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے حصول کی کوششیں شروع کی گئی تھیں۔ تب واشنگٹن میں سن 2010 میں پہلی ایٹمی سلامتی کانفرنس کا انعقاد ہوا تھا۔ سیول میں اپنی نوعیت کی اس دوسری کانفرنس میں مندوبین کی توجہ کا مرکز اس بارے میں تبادلہ خیال رہا کہ ایٹمی تنصیبات اور جوہری مادوں کو دہشت گردوں کی پہنچ سے زیادہ سے زیادہ محفوظ کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

سیول سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس بین الاقوامی کانفرنس کے آخری روز جو اہم ترین وعدے کیے جائیں گے ان میں ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی موجودہ تعداد میں کمی بھی شامل ہو گی۔

Recep Tayyip Erdogan / Barack Obama / Seoul
طیب ایردوآن اور باراک اوباما سیول میںتصویر: Reuters

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میزبان ملک جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ بک نے کہا کہ ایٹمی مادوں کے استعمال کو ختم کرنے یا کم سے کم کر دینے کے لیے بڑی پیش رفت لازمی طور پر ہونی چاہیے۔ انہوں نے جوہری مادوں کی غیر قانونی تجارت کا پتہ چلانے اور اسے روکنے کے لیے اور زیادہ بین الاقوامی تعاون پر بھی زور دیا۔

سیول کانفرنس کے مندوبین کے قریبی ذرائع کے مطابق شرکاء اپنے اختتامی اعلامیے میں انتہائی افزودہ یورینیم اور پلوٹونیم کے سول مقاصد کے لیے استعمال کو محدود کرنے کی حمایت بھی کریں گے۔ اس کے علاوہ کم از کم دس دیگر ملک یہ وعدہ بھی کریں گے کہ وہ اپنے ہاں ان دونوں جوہری مادوں کے ایسے تمام ذخائر ختم کر دیں گے جو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے استعمال میں لائے جا سکتے ہوں۔ واشنگٹن میں ایسی پہلی کانفرنس کے بعد سے اب تک آسٹریلیا اور ارجنٹائن سمیت دس سے زیادہ ریاستیں مجموعی طور پر 400 کلو گرام سے بھی زیادہ اپنا انتہائی افزودہ یورینیم تلف کر چکی ہیں۔ اس یورینیم سے 16 ایٹمی ہتھیار بنائے جا سکتے تھے۔

Silvio Berlusconi Seoul 2010
اطالوی وزیراعظم برلسکونی سیول میں دیگر سربراہوں کے ہمراہتصویر: AP

سیول کانفرنس کی انتظامی کمیٹی کے مطابق امریکہ اور روس دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتیں ہیں۔ لیکن وہ بھی اب تک اپنا کل 55 ٹن افزودہ یورینیم اس طرح ختم کر چکی ہیں کہ اس سے کوئی ایٹمی ہتھیار نہ بنائے جا سکیں۔

سیول کانفرنس میں شریک 53 ملکوں میں ایسی تمام ریاستیں بھی شامل ہیں جن کے پاس اعلانیہ طور پر جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ یہ ملک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، چین، پاکستان اور بھارت ہیں۔ اس کے علاوہ اس کانفرنس میں اسرائیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اس کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

سیول کانفرنس میں جو بڑی بڑی بین الاقوامی تنظیمیں بھی شامل ہوئیں، ان میں اقوام متحدہ، یورپی یونین اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نام قابل ذکر ہیں۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت:عدنان اسحاق