1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو ملٹری کمیٹی کے چیف کا دورہ اسلام آباد

9 جولائی 2009

نیٹو ملٹری کمیٹی کے چیئرمین ایڈمرل جیامپاؤلو دی پاؤلا نے پاکستانی فوجی اور سویلین قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔

https://p.dw.com/p/IkPo
ایڈمرل جیامپاؤلو دی پاؤلا نے پاکستانی فوجی اور سویلین قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کیںتصویر: AP

پاکستانی قیادت کےسے ملاقاتوں کے بعد جیامپاؤلو دی پاؤلا نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ مغربی اتحاد کےلئے سب سے بڑا چیلنج ناقابل حکمرانی علاقوں پر سرکاری عملداری قائم کرنا ہے کیونکہ یہی علاقے خطے اور دنیا بھر کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ علاقے میں طویل المیعاد موجودگی کے حوالے سے شکوک و شبہات کے تناظر میں ایڈمرل ڈیپالو نے کہا کہ نیٹو اتحادی افغانستان کو سکندر اعظم کی طرح فتح نہیں کرنا چاہتے بلکہ ان کی خواہش وہاں قانون اور ریاستی عملداری کا قیام ہے۔

ایڈمرل جیامپاؤلو دی پاؤلا نے پاکستانی فوج اور فضائیہ کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتوں میں مالاکنڈ، وزیرستان اور فاٹا کے دوسرے علاقوں میں جاری کارروائیوں کی آپریشنل تفصیلات پر تبادلہ خیال کیا اور اس حوالے سے پاکستانی افواج کی کارکردگی کی تعریف بھی کی۔ لیکن امریکی اور نیٹو فوجی اہلکاروں کی طرف سے تعریف اور تعاون کے وعدوں کے تناظر میں ہی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے جمعرات کے روز ایک بار پھر امریکی حکام سے جاسوس طیارے اور میزائل ٹیکنالوجی کی فراہمی کا مطالبہ دہرایا : ’’ہماری فضائیہ اور آرمی اعلیٰ تربیت یافتہ اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی حامل ہے اور ان کی قابلیت و کارکردگی کسی لحاظ سے بھی کم نہیں ہے اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈرونز ٹیکنالوجی ہمیں ملنی چاہیے۔‘‘

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف حکومت اور نیٹو حکام کے درمیان اتفاق رائے اور باہمی تعاون کے اعادے کے باوجود مولانا فضل الرحمن ایسے رہنماؤں کے خیال میں یہ تمام یک طرفہ کارروائی ہے جس میں عسکریت پسندوں کو بدنام کیا جا رہا ہے : ’’آپ یہ تو کہتے ہیں کہ عسکریت پسندوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا ہے، پہاڑ میں گئے ہوئے ہیں، یہ بندوق کے زور پر اسلام منوانا چاہتے ہیں، ہم اس شریعت کو کیوں مانیں، لیکن اس کے ساتھ آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ پارلیمنٹ اور قانون ساز اداروں کے ذریعے سے جو اسلامی قانون سازی ان کی ذمہ داری ہے وہ کیوں پوری نہیں ہو رہی۔‘‘

مبصرین کے مطابق دینی سیاسی جماعتوں کی دو عملی ہی کے باعث متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے دوران عسکریت پسندوں کو مالا کنڈ اور سوات میں بھی قدم جمانے کا موقع ملا اور حکمران اتحاد کے حامی انہی جماعتوں کے باعث خاص طور پر صوبہ سرحد اور فاٹا میں ان کے کارکن کھل کر خودکش حملوں اور تشدد کی کھلی مذمت سے گریز کر رہے ہیں۔

رپورٹ : امتیاز گل، اسلام آباد

ادارت : عاطف توقیر