1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال الیکشن اپ ڈیٹ

13 اپریل 2008

پہاڑوں کے دامن میں واقع دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال میں انتخابات کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/Di7P
دارالحکومت کھٹمنڈو میں Maoists امیدواروں کی الیکشن میں کامیابی کے بعد کارکنوں کا جشن
دارالحکومت کھٹمنڈو میں Maoists امیدواروں کی الیکشن میں کامیابی کے بعد کارکنوں کا جشنتصویر: AP

نیپال میں دس اپریل کے الیکشن کے بعد اب آہست آہستہ مزید صورت حال واضح ہونے لگی ہے۔ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ Maoistsتحریک کو بادشاہت کے خلاف جس حکومتی جبر کا سامنا رہا ہے اب اُس کا انعام اور ثمر ملنے کا وقت آ گیا ہے۔

نیپال میں دس اپریل کے تاریخی انتخابات میں Maoists کے امیدوار ایک بڑی کامیابی سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔بیاسی سے زائد حلقوں میں جو عوامی سوچ سامنے آ ئی ہے اُس کے مطابق لوگوںنے Maoists امیدوار کو دل کھول کر ووٹ ڈالے ہیں۔

جن سینتالیس حلقوں میں گنتی مکمل ہو چکی ہے اُن میںاب تک اُس کے پچیس امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے میدار بھی بعض مقامات پر جیت رہے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر عوامی سوچ یہی رہی تو غالب امکان ہے کہ Maoistsکو ایوان میں ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب سے جب نشستیں حاصل ہوں گی تو اُس کے امیدوار حکومت سازی اور قانون سازی میں اپنی مرضی کی کامیابی حاصل کر سکیں گے ۔

اِلیکشن کے بعد بننے والی دستور ساز اسمبلی کی پہلی میٹنگ میں ہی تو ملک کو وفاقی جمہوریہ قرار دیا جائے گا۔اس کا فیصلہ عبوری حکومت نے کیا تھا۔ووٹ کا رجحان اِس بات کا عکاس ہے کہ اب اِس پہلی قرارداد کی منظوری میں کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دے رہی۔چھ سو ایک نشستوں کے ایوان والی پارلیمنٹ کا پہلا کام ملک کے لیئے دستور سازی کرنا ہے۔

ایوان کی دو سو چالیس سیٹوں پر براہ راست انتخاب ہوا ہے۔دیگر تین سو پینتیس سیٹیںڈالے گئے ووٹوں یا متناسب نمائندگی کے تحت سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوں گی اور بقیہ چھبیس نشستیں کابینہ منتخب کرے گی۔

Maoistsکے علاوہ چوبیس حلقوں میں نیپالی کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کے اٹھار امیدوار مختلف حلقوں میں سبقت حاصل کیئے ہوئے ہیں ۔ Maoists کے سربراہ پراچنڈ نے بھی کھٹمنڈو میں اپنے حلقے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔اُن کو مدِ مقابل اُمیدواروں سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔

بعد میں ایک پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے پراچنڈ نے کہا کہ Maoists اب مرکزِ نگاہ ہیں، یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور وہ واضح کرنا چا ہتے ہیں کہ تعاون کا جو راستہ گزشتہ بارہ ماہ سےMaoists نے اپنا رکھا ہے وہ جاری و ساری رہے گا اور الیکشن کے بعد تمام جماعتوں کے ساتھ قریب تعاون کو برقرار رکھتے ہوئے قومی اتفاق کو ملک میں قائم کیا جائے گا۔ بین الاقوامی تعلقات اورہمسایہ ملکوں کے ساتھ قربت کے سوال کے جواب میں پراچنڈ نے کہا کہ وہ خصوصیت سے چین اور بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کو ترجیحی بنیادوں پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں اقتصادی اور امن کے فروغ کے لیئے وہ مل جل کر کام کرنے کو فوقیت دیں گے۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر بطور مبصر نیپال میں ہیں اور انہوں نے بھی انتخابی نتائج اورالیکشن کے عمل کو استحسانی نگاہوں سے دیکھا ہے اور کہا ہے کہ اِن نتائج کو ساری دنیا کو تسلیم کرنا چاہیے ۔

یورپی یونین نے بھی نیپالی عوام کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے پر تہنیتی پیغام ارسال کیا ہے۔

Maoists امریکی حکومت میں ایک دہشت گرد تنظیم کا درجہ رکھتے ہےں اور امکاناً انتخابی عمل کے بعد امریکہ اُس کے مقام کا ازسر نو تعین کر سکتا ہے۔