1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال، بچوں کو گود دینا منافع بخش کاروبار

9 مارچ 2010

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسف کے مطابق گزشتہ ایک برس کے دوران نیپال سے غیر ملکیوں کو گود دیے جانے والے بچوں میں 60 فیصد ایسے تھے جو دراصل یتیم نہیں تھے اور اس مقصد کے لئے جعلی کاغذات کا سہارا لیا گیا۔

https://p.dw.com/p/MOJj
تصویر: Beatrix Beuthner / DW

نیپال کا 28 سالہ راجن کمار اپنے بیٹے اور بیٹی کو بچوں کی نگہداشت کرنے والے ایک ادارے کے حوالے کرتے ہوئے جب اسٹامپ پیپر پر انگوٹھا لگا رہا تھا تو اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے بچوں سے دستبردار ہورہا ہے۔

نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں واقع مذکورہ چلڈرن ہوم کے مالک نے نشے کی لت سے چھٹکارا پانے کی کوششوں میں مصروف راجن کمار سے وعدہ کیا تھا کہ اس چلڈرن ہوم میں بچوں کی مناسب دیکھ بھال کی جائے گی۔ مگر ان بچوں کو یتیم قرار دے کر انہیں غیر ملکیوں کو گود دینے کے لئے پیش کردیا گیا، جو کہ نیپال میں ایک منافع بخش کاروبار بنتا جارہا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یتیم خانے کسی ایک بچے کو گود دیے جانے کے عوض 10 ہزار امریکی ڈالر تک وصول کرلیتے ہیں۔

یہ نیپالی جب اپنے بچے واپس لینے کے لئے پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی تین سالہ بیٹی کارونا کو ایک امریکی جوڑے کو گود دے دیا گیا ہے جو اسے امریکہ لے جانے کے لئے ویزے کے حصول کے لئے کوشش کررہے ہیں۔

Das Logo und der Schriftzug der Hilfsorganisation UNICEF sind am 5. Februar 2008 an der Zentrale in Koeln zu sehen.
یونیسف کے مطابق نیپال سے گود لئے جانے والے بچوں میں سے 60 فیصد تک ایسے ہوتے ہیں جو دراصل یتیم نہیں ہوتے۔تصویر: AP

راجن کے مطابق اس کے بچوں کو یتیم قرار دیتے ہوئے ان کے نام تک تبدیل کردیے گئے۔ چلڈرن ہوم کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر اسے اپنے بچوں سے ملانے سے انکار کردیا کہ اس سے دیگر بچوں پر بھی بُرا اثر پڑے گا۔

شدید تگ ودو کے بعد نیپالی جوڑا اپنے چھ سالہ بیٹے کو توحاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا مگر اپنی تین سالہ بیٹی کے حصول کے لئے انہیں ایک مقامی تنظیم کی مدد سے باقاعدہ قانونی چارہ جوئی کرنا پڑی۔

نیپال بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یہ کہانی دراصل ایک برف پارے یا آئس برگ کی محض نوک کی طرح ہے جس کا اصل حجم کئی گنا زیادہ مگر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق نیپال میں ایجنٹس منظم طور بہت زیادہ پیسے کمانے کے لئے بچوں غیر ملکی جوڑوں کے ہاتھوں بیرون ملک اسمگل کرنے میں مصروف ہیں۔

نیپال میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سال 2008ء میں قوانین بھی بنائے گئے تھے اور گزشتہ برس ان قوانین کی روشنی میں یتیم بچوں کو غیرملکیوں کو گود دینے کے عمل کا دوبارہ آغاز کیا گیا تھا۔ تاہم گزشتہ ماہ دی ہیگ میں موجود قانونی ماہرین نے نیپالی بچوں کو گود لینے کے عمل کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان ماہرین کے مطابق تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اس مقصد کے لئے نہ صرف غلط کاغذات کا سہارا لیا جاتا ہے بلکہ ایسا کرتے ہوئے بچوں کے مفادات کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے لئے کام کرنے والے ادارے یونیسف کے مطابق نیپال میں سال 2008ء میں قوانین میں تبدیلی کے باوجود صورتحال میں کوئی خاص بہتری نہیں ہوئی۔ مزید یہ کہ نیپال سے گود لئے جانے والے بچوں میں سے 60 فیصد تک ایسے ہوتے ہیں جو دراصل یتیم نہیں ہوتے۔

یونیسف نے نیپالی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بچوں کو گود دیے جانے کے حوالے سے دی ہیگ کنونشن کی فی الفور توثیق کرے اورکنونشن میں موجود قوائد وضوبط کی پابندی کو یقینی بنائے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں