1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وادئ سوات کی شرعی عدالتیں

19 مارچ 2009

سن اُنیس سو انتہر میں وادئ سوات کلی طور پر پاکستان میں ضم کی گئی تھی۔ تب سے عوام سہل اور جلد انصاف کے متلاشی تھے۔ اب وہاں قائم ہونے والی شرعی عدالتوں پر تشویش کا احساس ہے کہ قانونی تقاضے پورے کرنے میں ناکام ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/HFUm
ماضی میں سیاحوں کی جنت سمجھی جانے والی وادی سوات پاکستان کے نقشے پرتصویر: Faridullah Khan

پاکستان کی شورش زدہ وادیٴ سوات میں صوبائی حکومت اور سرگرم انتہاپسندوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کی روشنی میں شرعی عدالتوں نے کام شروع کردیا ہے۔ ایسی سات عدالت فی الحال قائم کی گئی ہیں۔

Chaos und Gewalt in Pakistan Besetzte Polizeistation nahe der afghanischen Grenze Musharraf verhängt Ausnahmezustand in Pakistan
سوات میں متحرک انتہاپسندوں کے گروہ میں شامل ایک مسلح شخصتصویر: AP

مگر دوسری جانب پاکستان کے اندر وکلاء کو اِس نئے عدالتی نظام کے قیام پر نشویش ہے۔ اُن کےخیال میں پاکستان میں مختلف النوع عدالتی نظام سے ملکی ساکھ اور انصاف کی روح کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ایسے بھی خدشات سامنے آئے ہیں کہ سوات میں قائم ہونے والی شرعی عدالتو ںکے قاضی یا جج صاحبان کا قانونی علم، بس مدرسے کی تعلیم تک محدود ہے اور ایسے میں وہ کئی معاملات میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر رہیں گے۔

عدالتی قاضیوں کی تعیناتی کی منظوری مولانا صوفی محمد نے دی ہے جو طالبان کے حامی تصور کئے جاتے ہیں۔ عدالتوں کے قیام کی تصدیق علاقائی انتظامی کمیشنر سید محمد جاوید نے بھی کی ہے۔

کل سات عدالتوں نے کام شروع کردیا ہے اور پرانی عدالتوں میں اب عوام کے نہ جانے سے جج صاحبان کے پاس کام کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کے ماہدے کی ابھی پاکستانی صدر کی جانب سے توثیق ہونا باقی ہے۔ شمال مغربی سرحدی صوبے کی مخلوط صوبائی حکومت کے سینئر وزیر بشیر بلور کے مطابق شرعی عدالتوں کا قیام مالاکنڈ ڈویژن کے دیگر چھ اضلاع میں بھی جلد عمل میں لایا جائے گا۔

وکلاء کے حلقوں کا خیال ہے کہ بائیس مارچ کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے منصب سنبھالنے کے بعد امکاناً مالاکنڈ میں مولانا صوفی محمد کی عدالتوں کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ مشرف دور میں شمال مغربی سرحدی حکومت میں قائم ہونے والی حکومت کے ایک بل کو بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سابقہ دور کے ایک بینچ نے قابل عمل ہونے کی جازت نہیں دی تھی۔

دوسری جانب پاکستان میں کچھ حلقوں کی جانب سے شرعی عدالتوں کے قیام کو اِس نگاہ سے بھی دیکھا گیا ہے کہ حکومتی عدالتی نظام کی ناکامی کے بعد ہی اِن عدالتوں کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ اردو یونیورسٹی کراچی کے پروفیسر توصیف احمد خان کے خیال میں اعلیٰ عدالتیں کی حثیت اب سوات کورٹ کے قیام کے بعد بے معنی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔