1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وراثت میں برابر کا حصہ، مصری عورت کی قانونی جنگ

16 نومبر 2019

دنیا کے کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کو وراثت میں حصہ لینے کے لئے قانونی جنگ کرنا پڑتی ہے۔ مصر میں جائداد کی تقسیم کا ایک کیس مسلم دنیا کی خواتین کے لئے مثال بن گیا۔

https://p.dw.com/p/3T9Dx
Ägypten Koptische Christen
تصویر: Getty Images/AFP/M. El-Shahed

مصر کے قانون کے مطابق عورت جائداد میں مرد کی نسبت آدھے حصے کی حق دار ہوتی ہے۔ ہدا نصراللہ کے والد کا گذشتہ برس انتقال ہو گیا تھا۔ اب ان کا ملکی ججوں سے سوال ہے کہ ان کے والد نے جو جائیداد چھوڑی ہے، اسکے دو بھائیوں اور اسکے بیچ برابر تقسیم کر دی جائے۔ ہُدا کے بھائیوں نے بھی اپنی بہن کے حق میں گواہی دے دی لیکن ججز نے ان کی گواہی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مصری عدالتوں نے دو بار نصرللہ کے خلاف اور اسلامی وراثتی قوانین کی بنیاد پر بھائیوں کے حق میں فیصلہ دیا ۔ انسانی حقوق کی وکیل چالیس سالہ نصراللہ نے اب اس فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ توقع ہے کہ اس ماہ کے آخر میں حتمی فیصلہ آ جائے گا۔

دراصل ہدا نصراللہ نے اپنا مقدمہ مسیحی عقائد کی بنیاد پر مرتب کیا جس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جنس سے قطع نظر ورثا برابری کا حق وصول کریں۔ ان کا خیال ہے کہ قوی امکان ہے کہ عدالت معاشرتی ڈھانچے کا احترام کرے گی۔ نصرللہ کا کہنا ہے کہ دراصل یہ مقدمہ جائداد کے بارے نہیں ہے بلکہ سوال ہے کہ اُن کے ساتھ بھی اُن کے بھائیوں جیسا سلوک کیا جائے۔

مسلم ورلڈ میں جائداد میں برابری کے لئے حقوق نسواں کی علمبرداروں کی جانب سے تحریک نے زور پکڑ رکھا ہے۔ شمالی افریقی ملک تیونس میں گذشتہ برس مساوی حقوق کے ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کو خواتین نے خوب سراہا لیکن باقی عرب دنیا میں اس کےخلاف ردعمل سامنے آیا تھا۔

Ägypten Koptische Christen
مصر میں قبطی مسیحیوں کی تعداد پندرہ سے بیس ملین کے درمیان ہے۔ےتصویر: picture-alliance/photoshot

سنی مسلمانوں میں معتبر حیثیت کے حامل جامع الازہر نے سختی سے تیونسی پیش رفت کو اسلامی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس سے مسلم معاشروں میں عدم استحکام سے پیدا ہو گا۔ جامع الازہر نے اس تجویز کو مسترد کر تو دیا لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کو امید ہے کہ مصر میں صورت حال تبدیل ہو کر رہے گی۔

نصراللہ کا تعلق مصر کے دس ملین قبطی مسیحی عقیدے سے ہے۔ وہ ایک ایسے مسلم معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک ایسا آئین نافذ جس کی اساس اسلامی شریعت ہے۔ مصری قانون قبطی چرچ کو قبطیوں کے ذاتی حیثیت کے معاملات یعنی شادی اور طلاق پر مکمل اختیار دیتا ہے۔ لیکن چرچ کے پاس وراثت کے حقوق پر اختیارات نہیں ہیں۔

نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی بنیاد پر اپنا مقدمہ چلا رہی ہیں۔ ایک قبطی خاتون کالم نگار کریمہ قبطی کا کہنا ہے کہ نصراللہ کا معاملہ اس معاشرے کے دوہرے امتیازی سلوک کو اجاگر کرتا ہے۔ کریمہ کے مطابق ایک عقیدے کے اصول دوسرے عقیدے کے ماننے والوں پر نافذ نہیں کرنا چاہئے۔

دسمبر 2018 کے اوائل میں نصراللہ کے والد نے جو کہ ایک کلرک تھے اپنے پیچھے قاہرہ کے ایک کم آمدنی والے علاقے میں چار منزلہ مکان اور بنک میں رقم چھوڑی تھی۔ مصر میں عموماً قبطی مرد اسلامی قوانین سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں وہیں نصراللہ کے بھائیوں نے برابری کی تقسیم پر جائداد کو تقسیم کرنے کی خواہش کی۔

ع ش ⁄ ع ح (اے پی)