1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وطن واپس لوٹنے والے افغان بچوں کو لاحق خطرات

14 دسمبر 2016

پاکستان سے واپس وطن لوٹنے والے افغان بچے ’چائلڈ لیبر‘ اور ’چائلڈ میرج‘ جیسے خطرات سے دوچار ہیں۔ سیو دا چلڈرن کے ایک تازہ سروے کے مطابق بچوں کو لاحق ان مسائل کے حل کے لیے افغان حکومت کو ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/2UEoV
Afghanistan Herstellung von Ziegeln
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

خبر رساں ادارے اے پی نے بین الاقوامی امدادی ادارے سیو دا چلڈرن کی ایک تازہ سروے رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران پاکستان سے واپس لوٹنے والے افغان مہاجرین کے بچوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق ایسے بچے جو اسکول نہیں جا رہے یا جن کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے مواقع نہیں ہیں، انہیں جبری مشقت میں جھونکا جا سکتا ہے یا ان کی شادی کی جا سکتی ہے۔

کيا پاکستان سے افغان مہاجرين کی ملک بدری درست ہے؟

کیا افغانستان کے سارے مسائل کا ذمہ دار پاکستان ہے؟

پاکستان سے چار لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کی ریکارڈ واپسی

چودہ دسمبر بروز بدھ کو جاری کردہ اس سروے کے نتائج کے مطابق افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں صورتحال زیادہ خطرناک ہے۔ اس عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں بچوں کی حفاظت کے حوالے سے صورتحال مزید ابترہو سکتی ہے کیونکہ یومیہ ساڑھے تین ہزار افغان مہاجرین پاکستان سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے افغان مہاجرین کی ملک واپسی کا عمل تیز کر دیا ہے اور غیر قانونی مہاجرین کی ملک بدری کی خاطر قواعد وضوابط انتہائی سخت بنا دیے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق رواں برس چھ لاکھ پچاس ہزار سے زائد افغان مہاجرین واپس وطن لوٹ چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افغان خاندان ننگر ہار میں ہی سکونت اختیار کرنا چاہتے ہیں، کم از کم موسم سرما کے خاتمے تک۔ آئندہ کچھ مہینوں میں مزید افغان خاندان پاکستان سے واپس افغانستان پہنچ جائیں گے۔

اس سروے کی تیاری کے سلسلے میں اٹھائیس اکتوبر تا آٹھ نومبر کے درمیانی عرصے کے دوران ننگر ہار کے پانچ اضلاع میں مجموعی طور پر 379 انٹرویوز کیے گئے۔ پاکستان سے واپس وطن لوٹنے والے بہت سے افغان خاندانوں کے پاس نہ تو مطلوبہ شناختی دستاویزات ہیں اور نہ ہی ان کے پاس روزمرہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کی خاطر رقوم ہیں۔

اس سروے کے نتائج کے مطابق غربت اور عدم تحفظ کے باعث زیادہ تر والدین کا خیال ہے کہ گھر کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے یا تو بچوں کی شادی کر دی جائے یا انہیں کام پر لگا دیا جائے۔ کابل میں تعینات سیو دا چلڈرن کے ایک مشیر نے اے پی کو بتایا، ’’اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو افغان بچوں کو لاحق خطرات میں اضافہ ہی ہو گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بالخصوص بچیوں کو اگر تعلیم کے مواقع میسر نہ آئے اور وہ اپنے گھرانوں پر بوجھ بنیں تو ان کی جلدی شادی کرنے کے خطرات زیادہ ہو جائیں گے۔

سیو دا چلڈرن کی اہلکار آنا لوکسن کے بقول وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین کی صورتحال اس لیے بھی زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان میں ان کے پاس اچھی ملازمتیں تھیں لیکن اب اپنے وطن میں وہ بے روزگار ہو چکے ہیں اور زیادہ تر کے پاس کوئی جمع پونجی بھی نہیں ہے، ’’ان افغان خاندانوں کے پاس اب مواقع کم ہیں۔ وہ یا تو اپنے بچوں کو جبری مشقت کروانے پر مجبور ہو سکتے ہیں اور بچیوں کی جلد شادی کرنے پر۔‘‘