1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل امن انعام کے لیے نامزد ڈاکٹر امجد ثاقب کون ہیں؟

23 اپریل 2022

فلاحی تنظیم اخوت کی بنیاد رکھنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے۔ جانیے ڈاکٹر امجد ثاقب کون ہیں اور کس طرح وہ پاکستان میں بلاسود قرض فراہم کرتے ہوئے ایک بہت بڑا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GRDg
Local Heroes Artikelbild Urdu

پاکستان کے علاقے فیصل آباد کے ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر امجد ثاقب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لینے کے بعد سول سروس میں جانے کا فیصلہ کیا اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے ایک اچھے افسر کے طور پر اپنی انتظامی صلاحیتوں کو منوایا۔ سرکاری ملازمت کے دوران انہیں پنجاب رورل سپورٹ پروگرام کے جنرل مینجر کے طور پر بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ یہی وہ لمحہ تھا، جب ڈاکٹر امجد کو غربت کے مسئلے کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنی زندگی دوسروں کی غربت کے خاتمے کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے غیر سرکاری فلاحی تنظیم اخوت کی بنیاد رکھی اور سرکاری ملازمت سے استعفی دے دیا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے دس ہزار روپے کے معمولی سرمائے سے غریب لوگوں کو بلا سود قرضے دینے کا آغاز کیا۔ آج ان کا ادارہ سود کے بغیر چھوٹے قرضے دینے والا دنیا کا ایک بہت بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ اخوت تنظیم بلا سود قرضوں اور پیشہ وارانہ رہنمائی کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے غریب لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد فراہم کر رہی ہے۔ اخوت نادار اور ضرورت مند لوگوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لیے بیس سے پچاس ہزار تک کے بلا سود قرضے فراہم کرتا ہے۔ یہ قرضے بغیر کسی لمبی چوڑی تفتیش کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک سادہ درخواست اور شخصی ضمانت کے ذریعے دیے جاتے ہیں۔

Local Heroes Amjad Saqib
اخوت کا ادارہ کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے گرجا گھروں میں خصوصی فلاحی تقریبات کا اہتمام بھی کرتا ہےتصویر: T. Shahzad

گزشتہ کئی برسوں میں اخوت تنظیم  اربوں روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہے اور لاکھوں غریب خاندان مستفید ہو چکے ہیں۔ اخوت پاکستان کے صوبوں کے علاوہ فاٹا، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے کئی علاقوں تک پھیل چکا ہے۔

اس سلسلے میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اخوت کے قرضوں کی واپسی کی شرح تقریبا ننانوے فیصد ہے۔ اخوت کی طرف دیے گئے قرضوں سے خواتین اور ملک کی اقلیتی برادریاں بھی مستفید ہوئی ہیں۔ اخوت کا ادارہ کرسمس کے موقع پر مسیحی برادری کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے گرجا گھروں میں خصوصی فلاحی تقریبات کا اہتمام بھی کرتا ہے۔

Local Heroes Amjad Saqib
یہ ادارہ خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود اور ان کی دیکھ بھال کا منصوبہ بھی جاری رکھے ہوئے ہےتصویر: T. Shahzad

اس فلاحی ادارے کو پاکستانی مخیر حضرات کی بڑی تعداد سپورٹ کرتی ہے۔ یہ ادارہ کاروبار کرنے کے متمنی خواتین و حضرات کی مدد کرنے کے علاوہ گھر بنانے، بچوں کی تعلیم یا بچوں کی شادی کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات کے لیے قرضے حاصل کرنے کے خواہش مند نادار افراد کی بھی مدد کرتا ہے۔ اخوت کے ماڈل کو دنیا کے کئی ملکوں اور کئی یونیورسٹیوں میں سٹڈی کیا جا رہا ہے۔ اخوت نے پاکستان کی قومی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے غریب لوگوں کی مدد کے لیے شروع کی جانے والی کئی سرکاری فلاحی سکیموں کی شفاف تکمیل کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

اس وقت اخوت کے بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد ثاقب کی زیر نگرانی قرضوں کی فراہمی کے کور پراجیکٹ کے علاوہ متعدد فلاحی منصوبے بھی چلائے جا رہے ہیں۔ ان میں اخوت کلاتھ بنک، اخوت ہیلتھ سروسز، اخوت ڈریمز پراجیکٹ، اخوت ایجوکیشن اسسٹنس پروگرام اور اخوت فری یونیورسٹی کے علاوہ یہ ادارہ خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود اور ان کی دیکھ بھال کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

Local Heroes Amjad Saqib
گزشتہ چودہ برسوں میں اخوت تنظیم سولہ ارب اور پچہتر کروڑ روپے مالیت کے بلا سود قرضے غریب اور پسماندہ لوگوں میں تقسیم کر چکی ہےتصویر: T. Shahzad

کچھ سال قبل ڈی ڈبلیو کے ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر امجد ثاقب کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کی معاشی مشکلات کا پائیدار حل غیر ملکی امداد سے ممکن نہیں۔ ان کے بقول بھیک مانگنے والی اقوام کبھی ترقی نہیں کر سکتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اقتصادی حالات کی بہتری کے لیے پاکستانیوں کو ہی اٹھنا ہوگا۔ غربت کے خاتمے کے لیے یہاں لوگوں کو سماجی آگاہی، کپیسٹی بلڈنگ، کاروباری تربیت اوردوسروں کی مدد کرنے والی رضاکارانہ سوچ سے مزین کرنا ہوگا۔ ان کے خیال میں اگر پچاس فیصد پاکستانی بقیہ پچاس فیصد پاکستانیوں کی مدد کا مخلصانہ تہیہ کر لیں تو لوگوں کی مشکلات میں بہت حد تک کمی لائی جا سکتی ہے، ’’میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستانی دیانتدار قوم ہے، اسی لیے تو لاکھوں لوگ چھوٹے چھوٹے قرضوں سے اپنے کاروبار سیٹ کر کے ہمیں قرضے واپس کر رہے ہیں بلکہ اخوت کے ڈونر بن رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ اخوت کا ماڈل روایتی اقتصادی تصورات کے ذریعے سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان کے بقول سودی قرضوں کی معیشت مسابقت، منافع کے لالچ اور مارکیٹ فورسز کے تحت کام کرتی ہے جبکہ وہ ایثار، قربانی اور دوسروں کی مدد کر کے ان کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

نوبل امن انعام 2022 کے لئے دنیا بھر سے 343 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں 251 انفرادی شخصیات اور 92 ادارے شامل ہیں۔ ان ناموں میں ایک نام ان کا بھی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام غربت کے خاتمے کیلئے کوشش اور انسانیت کی خدمت پر  نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ۔