1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’يورپی رياست کے وزير اعظم کا بھائی بھی پناہ گزين‘

عاصم سليم21 مارچ 2016

کوسووو کے وزير اعظم عيسیٰ مصطفیٰ نے میڈیا کی ان رپورٹوں کی تصديق کی ہے کہ گزشتہ برس يورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے کوسووو کے ہزارہا باشندوں ميں ان کے بھائی اور اس کے بچے بھی شامل تھے۔

https://p.dw.com/p/1IGny
تصویر: DW/B. Cani

جنوب مشرقی يورپی رياست کوسووو کے وزير اعظم نے اپنے فيس بک پيچ پر لکھا، ’’ميں نے پڑھا تھا کہ طبی امداد کے حصول کے ليے ميرے بھائی نے بھی ايک پناہ گزين کی حيثيت سے سفر کيا۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر کھل کر بات کريں گے۔ عيسیٰ مصطفیٰ کے بقول ان کے بھائی رجب کے بچے بھی يورپ جانے والوں ميں شامل تھے تاہم اب وہ واپس کوسووو پہنچ چکے ہيں۔ ان کے بقول يہ پيش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے اہل خانہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہيں، جس تک کوسووو کے ديگر شہری پہنچے۔ مصطفیٰ نے يہ بيان دارالحکومت پرسٹينا ميں قائم نشرياتی ادارے ’Insajderi‘ کی رپورٹوں کی تصديق کرتے ہوئے بيس مارچ کے روز ديا۔

پچھلے سال مغربی يورپ پہنچنے کے ليے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں نے مشرقی يورپ ميں بلقان ممالک سے گزرنے والے روٹ کا استعمال کيا تاہم حال ہی ميں بلقان ممالک کی سرحديں بند کر دی گئی ہيں۔ اس دوران ذرائع ابلاغ کی زيادہ تر توجہ خانہ جنگی کے شکار ملک شام اور عراق کے مہاجرین پر مرکوز رہی جبکہ کوسووو سے بھی ہزارہا پناہ گزينوں نے مغربی يورپ پہنچنے کی کوشش کی۔ يہ امر اہم ہے کہ سربيا کی حکمرانی کے خلاف سن 1998 اور 1999ء کی گوريلا جنگ کے بعد پچھلے سال سب سے بڑی تعداد ميں کوسووو کے شہريوں نے ترک وطن کيا۔ مارچ سن 2015 ميں ختم ہونے والے چھ ماہ ميں کوسووو کے تقريباً ستر ہزار شہريوں نے يورپ ميں سياسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

سن 1998 اور 1999ء کی گوريلا جنگ کے بعد پچھلے سال سب سے بڑی تعداد ميں کوسووو کے شہريوں نے ترک وطن کيا
سن 1998 اور 1999ء کی گوريلا جنگ کے بعد پچھلے سال سب سے بڑی تعداد ميں کوسووو کے شہريوں نے ترک وطن کياتصویر: Reuters/M. Rehle

نشرياتی ادارے ’Insajderi‘ کی رپورٹوں کے مطابق وزير اعظم عيسیٰ مصطفیٰ کے بھائی رجب نے ہنگری کے راستے يورپی يونين ميں داخل ہونے کی کوشش کی اور انہوں نے يہ کوشش بوداپسٹ کی جانب سے سربيا کے ساتھ لگنے والی سرحد بند کر ديے جانے سے قبل کی تھی۔ رجب نے پہلے فرانس اور پھر پچھلے سال جون ميں جرمنی ميں سياسی پناہ کی درخواستيں جمع کرائی تھيں۔ بعد ازاں وہ البانيا ميں کچھ عرصے کے ليے زير علاج تھے۔ مصطفیٰ نے اپنے بھائی کی موجودہ حالت کے بارے ميں بتايا کہ اس وقت وہ پرسٹينا ميں ہے اور اس کی طبيعت خراب ہے۔

جرمنی اور ديگر يورپی ملکوں کی حکومتوں نے پچھلے سال ہی کوسووو سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کو ملک بدر کرنا شروع کر ديا تھا اور اسی وجہ سے کوسووو سے ہجرت کا سلسلہ کافی حد تک رک چکا ہے۔ يورپی ممالک کا ماننا ہے کہ کوسووو کے شہری سياسی پناہ کے اہل نہيں ہيں۔ دوسری جانب سن 1990 کی دہائی سے شروع ہونے والے اخراج کے نتيجے ميں کوسووو کے تقريباً آٹھ لاکھ شہری جرمنی اور سوئٹزرلينڈ جيسے مغربی يورپی ممالک ميں رہائش پذير ہيں۔

کوسووو نے سن 2008 ميں آزادی کا اعلان کيا تھا۔ قريب ايک اعشاريہ آٹھ ملين آبادی والا يہ ملک يورپ کے غريب ترين ملکوں ميں شامل ہوتا ہے۔ وہاں طبی سہوليات کا معيار انتہائی ناقص ہے اور جس کسی کو بھی قابل بھروسہ طبی سہوليات درکار ہوتی ہيں، اسے ذاتی طور پر اس کے اخراجات اٹھانے پڑتے ہيں۔