1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’يورپی شہری برطانيہ سے نکل جائيں، لیکن کیوں؟‘

عاصم سلیم
24 اگست 2017

برطانوی حکومت نے اس دستاويزی غلطی کے ليے معافی مانگ لی ہے، جس ميں برطانيہ ميں مقيم تقريباً ايک سو يورپی باشندوں کو خطوط کے ذريعے ايک ماہ کے اندر اندر ملک چھوڑ دينے کے احکامات جاری کر ديے گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/2ileg
UK London Palace of Westminster mit Big Ben
تصویر: picture alliance/dpa/D. Kalker

برطانوی وزارت داخلہ کی ايک ترجمان نے جمعرات چوبيس اگست کے روز  بتايا کہ حکام متاثرہ افراد سے معافی مانگ چکے ہيں اور اس سلسلے ميں تحقيقات جاری ہيں کہ يہ غلطی کيسے سرزد ہوئی۔ خاتون ترجمان نے مزيد کہا، ’’ہم ان تمام افراد کے ساتھ رابطے ميں ہيں، جنہيں يہ خطوط موصول ہوئے تاکہ انہيں يہ بتايا جا سکے کہ وہ اس خط کو بے معنی سمجھيں اور يہ بھی کہ برطانيہ ميں ان کے حقوق ميں کوئی تبديلی نہيں آئی ہے۔‘‘ قبل ازيں وزير اعظم ٹيزيزا مے بھی ہوم آفس کی اس کوتاہی کا ذکر کرتے ہوئے برطانيہ ميں مقيم يورپی باشندوں کو يقين دہانی کرا چکی ہيں کہ انہيں ہر گز ملک بدر نہيں کيا جائے گا۔

يہ کوتاہی اس وقت منظر عام پر آئی، جب مائکرو بلاگنگ ويب سائٹ ٹوئٹر کی ايک صارف اور برطانيہ ميں مقيم فن لينڈ کی شہری ايوا يوہانا ہولمبرگ نے اس بارے ميں ايک پيغام جاری کيا۔ لندن کی ’کوئين ميری يونيورسٹی‘ کی اس طالبہ نے لکھا، ’’دفتر داخلہ فن لينڈ کی ايک طالبہ کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے، جو ايک طالب علم ہے، برطانيہ ميں ٹيکس ادا کرتی ہے اور برطانيہ ہی کے ايک شہری کے ساتھ شادی شدہ بھی ہے۔‘‘ ان کے اس پيغام کے بعد سوشل ميڈيا پر  ایک واويلا مچ گیا۔ اطلاع ہے کہ متعلقہ دفتر کی جانب سے تقريباً ايک سو افراد کو ايسے انتباہی خطوط ارصال کيے گئے تھے۔

برطانيہ ميں اس وقت ديگر يورپی ممالک کے شہريوں کی تعداد 3.2 ملين ہے۔ ابھی تک انہيں وہاں قيام اور ملازمت کے ليے کسی خصوصی ويزے وغيرہ کی ضرورت نہيں تاہم برطانيہ کے يورپی يونين سے اخراج يا بريگزٹ کے بعد يہ صورتحال غير واضح ہے۔ بيگزٹ مذاکرات ميں ان شہريوں کے حقوق ايک اہم معاملہ خیال کیا جاتا ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید