1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپ ميں سخت تر سکيورٹی اقدامات زير غور

عاصم سليم6 اپریل 2016

مہاجرين کی آمد روکنے کے ليے يورپی يونين کی بيرونی سرحدوں کی نگرانی اور پيرس اور برسلز ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر ميں سکيورٹی بڑھانے کے سلسلے ميں آج يورپی کميشن کی جانب سے تجاويز پيش کی جا رہی ہيں۔

https://p.dw.com/p/1IQ3R
تصویر: Getty Images/AFP/T. Fabi

يورپی کميشن کی جانب سے بدھ چھ اپريل کے روز جو مسودہ پيش کيا جا رہا ہے اس ميں قانون کے نفاذ اور بارڈر مينجمنٹ کو بہتر بنانے کے ليے تکنيکی تجاويز اور مشتبہ افراد کی تلاش کے ايک مشترکہ نظام کا قيام شامل ہيں۔ اگرچہ يہ خيال نيا نہيں تاہم اسے عملی جامہ پہنانے کے ليے پيچيدہ قانونی و تکنيکی اقدامات درکار ہيں، جن کی مدد سے ڈيٹا اور پرائيوسی پروٹيکشن يا لوگوں کی ذاتی معلومات کے تحفظ اور اضافی سکيورٹی کے مابين توزان برقرار رکھا جا سکے۔

اس مسودے ميں سن 2013 ميں پيش کردہ ايک تجويز کو تراميم کے بعد نئے سرے سے پيش کيا جا رہا ہے، جس کے تحت يورپی يونين سے باہر کے لوگوں کے ليے ’انٹری، ايگزٹ‘ سسٹم کا مطالبہ سامنے رکھا گيا ہے۔ اس مجوزہ اقدام کا مقصد يورپی يونين ميں مقررہ يا بيان کردہ مدت سے زيادہ عرصے تک قيام کو روکنا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق يورپی بلاک سے باہر کے شہريوں کے انگليوں کے نشانات اور چہرے کی تصوير لينے کے مجوزہ نظام کو سن 2020 سے شروع کرنے کی تجويز دی گئی ہے۔

نومبر 2015ء ميں پيرس اور پھر رواں سال مارچ ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں مجموعی طور پر 160 افراد ہلاک ہو گئے تھے
نومبر 2015ء ميں پيرس اور پھر رواں سال مارچ ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں مجموعی طور پر 160 افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Getty Images/C. Furlong

نيوز ايجنسی روئٹرز کی بيلجيم کے دارالحکومت برسلز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق يہ مسودہ يورپی کميشن کی جانب سے آج پيش کيا جا رہا ہے۔ مسودے ميں لکھا ہے کہ فرانسيسی دارالحکومت پيرس اور برسلز ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے سبب يورپی يونين کی بارڈر مينجمنٹ، ہجرت اور سکيورٹی امور ميں تعاون توجہ کا مرکز بن گئے ہيں۔

يہ امر اہم ہيں کہ نومبر 2015ء ميں پيرس اور پھر رواں سال مارچ ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں مجموعی طور پر 160 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان خونزير حملوں کی ذمہ داری مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ نے قبول کر لی تھی۔ ان حملوں کے نتيجے ميں اضافی سکيورٹی اقدامات، نگرانی اور معلومات کے تبادلے کی وکالت يا مطالبہ کرنے والوں کا پلڑا بھاری ہو گيا ہے جبکہ اضافی اور سخت تر اقدامات کے سبب پرائيوسی متاثر ہونے والوں کے موقف کمزور پڑ گئے ہيں۔

يوروپول کے سربراہ روب وين رائٹ نے منگل کے روز يورپ کو درپيش مہاجرين کے بحران اور اسلام پسندوں کے حملوں کے خطرے کے تعلق کی جانب توجہ دلائی۔ ان کے بقول چند دہشت گردوں نے مہاجرين والا راستہ اختيار کيا تھا۔ يورپی يونين کی بارڈر ايجنسی فرنٹيکس کی جانب سے بھی کہا گيا ہے کہ تيرہ نومبر ميں پيرس ميں کيے گئے حملوں ميں شامل دو ملزمان جعلی شامی دستاويزات دکھا کر يونان کے راستے يورپی يونين ميں داخل ہوئے تھے۔