1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹارزن اب پیرس میں

16 جون 2009

آج کل پیرس کے نئے آرٹ ہاؤس قوائی برینلے کے باغوں اور گیلیریوں میں ٹارزن کی مشہور زمانہ پکار "اولوولووو" کی بازگشت جدید ساؤنڈ سسٹم کے ساتھ گونج رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/IBvc
ٹارزن کے کردار نے 1912ء میں امریکی ناول نگار ایڈگر رائس بوروز کی تخلیقی دنیا میں قدم رکھاتصویر: AP

بچوں، نوجوانوں حتیٰ کہ بہت سے بزرگوں کے بھی چہیتے کردار ٹارزن کو دیگر کئی اساطیری جانوروں کے کرداروں کے ساتھ اس ہفتے اِس میوزیم کے ایک شو میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ شو ستائیس ستمبر تک جاری رہے گا۔

ٹارزن کے کردار نے 1912ء میں امریکی ناول نگار ایڈگر رائس بوروز کی تخلیقی دنیا میں قدم رکھا۔ مصنف نے ’’ٹارزن آف ایپس‘‘ کے ساتھ ساتھ چھبیس دیگر ناول بھی تصنیف کئے تھے۔ کیا یہ کردار جنگل کا کوئی مسیحا ہے؟ کوئی مہذب وحشی ہے ؟ یا پھر کوئی سپر ہیرو؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ بوروز نے اپنی زندگی میں کبھی بھی بر اعظم افریقہ میں قدم نہیں رکھا تھا، جہاں بندروں نے اس کے تخلیقی کردار کی پرورش کی تھی۔ لیکن مصنف کو ’’جنگل بک‘‘ نامی کتاب سے تحریک ضرور ملی تھی، جب اس نےاپنے شہر شکاگو میں 1893ء میں ایک عالمی میلے میں شرکت کی تھی۔

پیرس میں جاری اس شو میں ٹارزن کے کردار کے ساتھ ساتھ مختلف جانوروں کے کرداروں پر مبنی فلمیں،کہانیاں اور کتابیں بھی پیش کی جا رہی ہیں۔ اس شوکا مقصد اُس فطری دنیا کے ماحول کو دکھانا ہے، جس سے متاثر ہو کر مصنف ایڈگر رائس بوروز نے ٹارزن کا کردار تخلیق کیا تھا۔ جب یہ کردار تخلیق ہوا، تب امریکہ کسادبازاری کے دور سے گذر رہا تھا۔ بوروز نے اِس کردار کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کیسے انسان مغرب کے مادی معاشرے پر اپنا اعتبار کھو دیتا ہےاور فطرت کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے۔

Tarzan Musical
ٹارزن پر پہلی فلم خاموش فلموں کے دور کی ہے اور 1916ء میں بنی تھیتصویر: picture-alliance/ dpa

پیرس کے عجائب گھر کے سربراہ سٹیفن مارٹن کے مطابق کتاب ہو، فیشن ہو یا پھر موسیقی، مغربی دنیا کے ثقافتی منظر نامے میں اُن چیزوں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے، جو غیر یورپی دنیا سے آتی ہیں۔ ٹارزن شو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اِس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مغربی دنیا افریقی براعظم کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ مارٹن نے کہا کہ اس نمائش کا مقصد لوگوں میں سوچنے سمجھنے کی تحریک پیدا کرنا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آج کل کے عجائب گھروں میں انسانی تہذیب کے ارتقاء کو ایک ایسی دلچسپ شکل میں پیش کرنے کا رجحان نظر آ رہا ہے، جس میں لوگوں کو تفریح بھی ملے اور وہ کچھ سیکھیں بھی۔

میوزیم سے وابستہ انسانی علوم کے ماہر راجر بوئلے نے مصنف ایڈگر کے حوالے سے بتایا کہ وہ رُڈیارڈ کپلنگ کے کردار موگلی سے بہت متاثر تھے۔ اُنہیں ایسے بچوں کی کہانیاں پسند تھیں، جن کی تربیت اور پرورش جنگل کے ماحول میں ہوتی ہے۔ اُنہوں نے مزید بتایا کہ جنگل کے ماحول میں تربیت پانے والا ٹارزن دیگر ماورائی کرداروں سے مختلف ہے۔ جہاں دیگرماورائی کردار جیسے بیٹ مین دوسری دنیا سے طاقتیں حاصل کرتے ہیں، وہاں ٹارزن کی تمام صلاحیتیں خود اُس کے اندرموجود ہیں۔

اس شہرہء آفاق کردار کی کہانیوں کو پوری دنیا تک پہنچنے میں کئی برس لگے لیکن اب تک یہ کتاب دنیا بھر میں پندرہ ملین کی تعداد میں شائع ہو چکی ہے۔

ٹارزن پر پہلی فلم خاموش فلموں کے دور کی ہے اور 1916ء میں بنی تھی، جس میں مرکزی کردار ایلمو لنکن نے ادا کیا تھا۔ اب تک اِس کردار پر 42 فلمیں بن چکی ہیں جبکہ ٹیلی وژن سیریز اِس کے علاوہ ہیں۔

1930ء میں بننے والی فلم میں اداکار جونی وائس ملر نے ٹارزن کے کردار میں اُس منفرد اور پر کشش پکار کا اضافہ کیا، جو بعد میں اِس کردار کی پہچان بن گئی۔ اس کردار کی نسوانی شکل کو اداکارہ مورین اوسلوین نے ادا کیا تھا۔

اس شو میں ایسے تمام اشتہارات، پوسٹرز اور پرانی تصویریں بھی پیش کی گئی ہیں، جن میں اب تک ٹارزن کو دکھایا گیا ہے۔

رپورٹ عروج رضا

ادارت امجد علی