1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا عمل روک دیا

William Yang/ بینش جاوید DPA
1 جون 2017

امریکی صدر نے اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر دیں گے۔

https://p.dw.com/p/2e0L1
USA Präsident Donald Trump im Weißen Haus in Washington
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہو گئے تو امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر دیں گے۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج جمعرات یکم جون کو ایک حکم نامے پر دستخط کر دیے، جس کے تحت تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ کم از کم آئندہ چھ ماہ تک یروشلم منتقل نہیں ہو گا۔

فلسطینیوں کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس منصوبے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا کہ اگر امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا گیا تو اس سے مشرق وُسطیٰ میں قیام امن کے عمل کو نقصان پہنچے گا۔

تاہم وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ سفارت خانے کو حتمی طور پر تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے پر قائم ہیں اور موجودہ فیصلے کو کسی بھی صورت صدر ٹرمپ کی طرف سے اسرائیل کے لیے مضبوط حمایت یا اسرائیل اور امریکا کے درمیان موجود اتحاد سے پیچھے ہٹنے کے طور پر نہ دیکھا جائے۔

Israel US-Botschaft in Tel Aviv
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken

وائٹ ہاؤس کے ترجمان شین اسپائسر کے مطابق، ’’صدر ٹرمپ نے یہ فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان کامیابی کے ساتھ ایک معاہدہ ہونے کے امکانات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے اور  امریکا کے نیشنل سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا ہے۔‘‘

شین اسپائسر کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن جیسا کہ انہوں نے سفارت خانے کو منتقل کرنے کے عزم کا بار بار اظہار کیا ہے، اس لیے سوال یہ نہیں ہے کہ ایسا ہو گا یا نہیں بلکہ صرف یہ سوال ہے کہ ایسا کب ہوتا ہے۔‘‘

ڈی پی اے کے مطابق ایک امریکی قانون کے تحت تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کیا جانا ہے تاہم امریکا دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے اسے تل ابیب میں ہی قائم رکھے ہوئے ہے۔ دونوں امریکی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بننے والے صدور اس ضرورت کو چھ چھ ماہ کے لیے مؤخر کرتے چلے آئے ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ ایسے کسی اقدام سے امریکا کی قومی سلامتی کے مفادات کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور امن عمل کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

آخری مرتبہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے دسمبر میں تاخیری حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کی چھ ماہ کی مدت آج جمعرات یکم جون کو ختم ہو رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اسرائیل اور فلسطینی علاقوں کا دورہ کیا تھا تاہم انہوں نے اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی تھی۔