1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹرمپ کے بیان پر پاکستان برہم

عاطف توقیر
2 جنوری 2018

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کی بابت سخت الفاظ کے استعمال کے بعد امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2qCv6
USA Trump droht Pakistan via Trwitter mit Zahlungsstopp
تصویر: Reuters/J. Ernst

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال نو کے اپنے پہلے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کا نام لے کر کہا تھا کہ اس ملک کو اربوں ڈالر کی امریکی امداد دی جاتی رہی ہے اور اس کے بدلے ميں امریکا کو جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں ملا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہيں فراہم کر رہا ہے۔

پاکستان سے صرف جھوٹ اور دھوکہ ملا، صدر ٹرمپ

’دنیا دیکھ رہی ہے‘، ایران میں مظاہروں پر ٹرمپ کی تنبیہ

کیا پاکستان ایران مخالف اتحاد کا حصہ بنے گا؟

پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو اسی بیان کے تناظر میں پیر کی شب دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے نے ڈیوڈ ہیل اور پاکستانی حکام کے درمیان ملاقات کی تصدیق کی ہے، تاہم اس ملاقات میں ہونے والی گفت گو کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ فی الحال اس ملاقات کی بابت اسلام آباد حکومت کی جانب سے بھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امريکی صدر کی طرف سے سال نو کے آغاز پر اپنے پہلے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کے حوالے سے اس انداز کے سخت الفاظ کا استعمال کرنا، اسلام آباد حکومت کے لیے باعث تشویش ہے۔

ٹرمپ نے سال نو کی علی الصبح اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا، ’’امریکا نے پچھلے 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد کی رقم بے وقوفانہ طور پر دی اور اس کے بدلے انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے رہنما بے وقف ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم جنہیں افغانستان میں ڈھونڈتے رہے، ان دہشت گردوں کو پاکستان محفوظ ٹھکانے دیتا رہا۔ مگر اب بس۔‘‘

اس بیان کے بعد پاکستانی وزیرخارجہ اور وزیردفاع کی جانب سے فوری ردعمل میں ایک مرتبہ پھر کہا گیا کہ ملک نے افغانستان میں امریکی عسکری مداخلت کے بعد امریکا کے لیے بہت کچھ کیا اور القاعدہ کے خاتمے میں امریکا کی مدد کی، جس کے بعد اسے فقط ’طعنے اور بداعتمادی‘ ملی۔

امریکا کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا قریبی اتحادی ہے، تاہم ساتھ ہی وہ پس پردہ افغانستان میں مقامی اور غیرملکی فورسز پر حملوں میں ملوث عسکری گروہوں کی معاونت بھی کرتا ہے۔ پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے یہ موقف اپناتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کے ہزاروں شہری مارے گئے اور اس کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

’پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ کابل بہت مثبت قدم تھا‘ معید یوسف

امریکا میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز پر پاکستان کے ساتھ اسٹریٹیجک اتحاد قائم کيا تھا۔ تاہم امریکی حکام بارہا کہتے آئے ہیں کہ افغانستان میں خون ریز حملوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک اور پاکستانی فوج کے درمیان رابطے قائم ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی افغان طالبان کے نائب سربراہ بھی ہیں۔