1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹريکٹرز افريقی عورتوں کی بے روزگاری کا سبب

عاصم سلیم
4 دسمبر 2017

افريقہ ميں موسمياتی تبديليوں کی وجہ سے کئی علاقے بنجر ہوتے جا رہے ہيں۔ ’فوڈ اينڈ ايگريکلچر آرگنائزيشن‘ نے سينيگال سے لے کر سوڈان تک وسيع تر علاقوں کو دوبارہ زرخير بنانے کا منصوبہ بنايا ہے تاہم اس کا ايک منفی پہلو بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/2oiFt
Afrika Uganda - Frauen tragen Wasserbehälter auf dem Kopf
تصویر: Imago/Blickwinkel

افريقی ملک نائجر کے ايک چھوٹے سے ديہات ميں حجارا علی بڑی مايوسی سے ٹريکٹر کو کام کرتے ہوئے ديکھ رہی ہیں۔ ٹريکٹر کی مدد سے بنجر زمين کو دوبارہ زرخيز بنانے کے ليے تيار کيا جا رہا ہے۔ پھر اس میں درخت لگائے جائيں گے۔ ايسے منصوبوں کی مدد سے نائجر کے کئی علاقوں ميں درخت لگائے جا رہے ہيں اور اناج اگانے کا کاج بھی جاری ہے۔ بظاہر يہ ايک مثبت پيشرفت نظر آتی ہے ليکن حجارا اس سے خوش نہيں۔

پينتاليس سالہ حجارا علی اپنے ديہات کی ديگر چند عورتوں کے ساتھ زمين کھودنے کا کام کيا کرتی تھی۔ اس سے انہيں کچھ پيسے مل جاتے تھے ،جس سے ان کی بہت سے ضروريات پوری ہو جايا کرتی تھيں۔ ليکن جب سے گاؤں ميں ٹريکٹرز کی آمد ہوئی ہے، يہ عورتيں بے روز گار ہو گئی ہيں۔ حجارا بتاتی ہیں، ’’ہم جوڑوں کی صورت ميں کام کيا کرتے تھے۔ کبھی کبھی ہم ايک ہی دن ميں چھ گڑھے کھود ديا کرتے تھے جس سے ہميں يوميہ تقريباً ساڑھے چار ڈالر کے برابر پيسے مل جاتے تھے۔‘‘ ان خاتون کے بقول اگرچہ يہ رقم زيادہ نہيں ليکن اس سے وہ خود مختار اور آزاد محسوس کرتی تھیں۔

سينيگال سے لے کر سوڈان تک اس خطے ميں صحرائی علاقوں کو کم کرنے کے مقصد سے اقوام متحدہ کی ’فوڈ اينڈ ايگريکلچر آرگنائزيشن‘ (FOA) ٹريکٹروں ميں کافی سرمايہ کاری کر رہی ہے۔ پچھلے چند برسوں ميں موسمياتی تبديليوں کے اثرات اور ان کے علاوہ زراعت، فصل کی کٹائی کے بعد اسے آگ لگانے کے عمل اور بارشوں کی آمد کے اوقات ميں تبديليوں کے سبب زمين بنجر ہو گئی ہے۔ ليکن زمين ميں نمی برقرار رکھنے کے ليے چند سادہ سے اقدامات کی بدولت زمين کو دوبارہ زرخيز بنايا جا سکتا ہے اور يہی ايف او اے کی کوشش ہے۔ آدھے چاند کی صورت ميں گڑھوں کی کھدائی کے ليے مقامی کسانوں کو رقم دی جا رہی ہے اور ساتھ ہی مشينيں بھی۔

البتہ اس پيش رفت کا منفی پہلو بھی ہے۔ مرد اکثر ملازمتوں کی تلاش يا پھر جانور چَرانے کے ليے اپنے ديہات چھوڑ جاتے ہيں اور ايسے ميں زمين کا خيال رکھنے کا کام عورتوں کے سپرد ہوتا ہے۔ ٹريکٹروں کی آمد کے ساتھ مقامی عورتيں بے روز گار ہوتی جا رہی ہيں۔ نتيجتاً کئی علاقوں ميں خواتين خوش نہيں۔ ٹيلابيری خطے کے داؤمبا نامی ديہات سے تعلق رکھنے والی سلامٹوسا ادريسيہ کہتی ہيں، ’’يقيناً ہميں ايک مشکل کام سے آرام تو ملے گا ليکن اس ميں ہمارا نقصان بھی ہے۔‘‘

’فوڈ اينڈ ايگريکلچر آرگنائزيشن‘ کی کوشش ہے کہ تقريباً اٹھارہ ہزار ايکڑ زمين کو آئندہ برس کے دوران اس طرح زرخيز بنايا جائے۔ اسے افريقہ کی ’گريٹ گرين وال‘ کا نام ديا گيا ہے۔ ادارے نے يہ پيشن گوئی کی تھی کہ اس منصوبے سے مقامی سطح پر عورتوں کو روزگار کے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور حل کے طور پر يہ تجويز کيا تھا کہ عورتيں اب زراعت کے ليے بيج اکھٹے کر کے روزگار کما سکتی ہيں۔  ’فوڈ اينڈ ايگريکلچر آرگنائزيشن‘ کے مطابق طويل المدتی بنيادوں پر يہ ان کے ليے زيادہ سود مند ثابت ہو گا۔

’عورت کی مشقت کی نہ اُجرت نہ ہی گنتی‘