1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹوئیٹر: 140 کریکٹرز کی بندش کا خاتمہ جلد متوقع

افسر اعوان6 جنوری 2016

مائیکروبلاگنگ کی معروف سروس ٹوئیٹر ایک نئے فیچر کی تیاری میں مصروف ہے جس کے بعد صارفین ٹوئیٹ لکھتے ہوئے 140 کریکٹرز کی بندش سے آزاد ہو جائیں گے۔ رپورٹوں کے مطابق صارفین 10 ہزار کریکٹرز تک کا پیغام تحریر کر سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1HZCu
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi

ٹیکنالوجی سے متعلق خبروں کی ویب سائٹ ری کوڈ Re/code'' کے مطابق 10 ہزار کریکٹرز کی حد کی صورت میں آپ ایک ہزار تک الفاظ پر مشتمل ٹوئیٹ کر سکیں گے۔ ری کوڈ نے ٹوئیٹر کے اس منصوبے کے بارے میں معلومات رکھنے والے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ مارچ کے آخر تک اس نئی سروس کا آغاز کر سکتی ہے۔ تاہم ابھی تک اس مقصد کے لیے باقاعدہ طور پر کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔

ری کوڈ کے مطابق ٹوئیٹر کی یہ کوشش ہے کہ اس کی ٹائم لائن کی موجودہ شکل برقرار رہے۔ اسی باعث نئی سروس کے جس ورژن پر کام ہو رہا ہے اس میں صارفین کو ابتدائی 140 کریکٹرز کا ہی پیغام نظر آئے گا تاہم اسے کلک کر کے بقیہ تمام حصہ پڑھا جا سکے گا۔

Symbolbild Twitter Deutschland
تصویر: dw/picture-alliance/dpa/Karl-Josef Hildenbrand

ٹوئیٹر کا آغاز 10 برس قبل ہوا تھا جبکہ اِس وقت اِس کے 300 ملین سے زائد صارفین ہیں جو روزانہ سینکڑوں ملین پیغامات لکھتے ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق 140 کیریکٹر کی بندش ٹویئٹر کے پہلے ورژن میں متعارف کرائی گئی تھی کیونکہ شروع میں یہ ایس ایم ایس کی طرز پر کام کرتا تھا۔ ری کوڈ کا کہنا ہے کہ ٹوئیٹر اس بات پر تحقیق کرتا رہا ہے کہ گزشتہ 10 برس سے 140 کریکٹر کی بندش جاری رہنے کے بعد اب صارفین کے لیے کس طرح یہ ممکن بنایا جائے کہ وہ اپنی بات مکمل طور پر کہہ سکیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کی طرف سے قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ 10 ہزار کریکٹرز والی تبدیلی ایک صارف سے دوسرے کو براہ راست پیغامات پر لاگو ہو چکا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹوئیٹر کی طرف سے یہ تبدیلی دراصل زیادہ صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ایڈورٹائزنگ اور دیگر طریقوں سے کمپنی کا ریوینیو بڑھانے کی کوشش ہے۔ گزشتہ برس کی پہلی تین سہ ماہیوں کے دوران ٹوئیٹر کو مسلسل نقصان ہوتا رہا۔ تیسری سہ ماہی میں یہ نقصان 132 ملین ڈالرز کا بتایا گیا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق تاہم ٹوئیٹر کی طرف سے ابھی تک براہ راست ان اطلاعات کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔