1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹوفنگرز ٹیسٹ کی ممانعت: طبی ماہرین اور سول سوسائٹی کاخیرمقدم

عبدالستار، اسلام آباد
12 نومبر 2020

طبی ماہرین، انسانی حقوق کی تنطیموں اور حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے حکومت پنجاب کی طرف سے زنابالجبر اور جنسی تشدد کے مقدمات میں دو انگلیوں کے ٹیسٹ کی ممانعت کو سراہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3lCio
Indien Pakistan Symbolbild Vergewaltigung
تصویر: Getty Images


مذکورہ تنظیموں، ان کے کارکنان اور ماہرین نے تاہم حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان مقدمات میں ظلم کی شکارخواتین کو انصاف دلانے کے لیے مزید اقدامات کیے جائیں۔

واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ عورت کی پاکدامنی یا یہ ثابت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ زنا بالجبر یا جنسی تشدد ہوا ہے کہ نہیں اور یہ طریقہ کارپاکستان کے تقریباً تمام علاقوں میں نافذ العمل ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے جنسی تشدد اور زنا بالجبر کے مقدمات سے نمٹنے کے لیے متعلقہ اداروں کو ایک بائیس رکنی گائیڈ لائن جاری کی ہے، جس میں دوانگلیوں والے ٹیسٹ کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔

مزید اقدامات کی ضرورت

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حقوق نسواں کی کارکنان اس ٹیسٹ کو عورت کی تحقیر اور بنیادی انسانی اقدار و حقوق کے منافی قرار دیتی ہیں۔ کئی بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس طریقہ کار کو غیر انسانی اور انسانی وقار کے خلاف قرار دے چکی ہیں جب کہ ملک کی وزارت انسانی حقوق نے بھی اس کے خلاف سفارشات پیش کی ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لیے لڑنے والی مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ حکومت کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "حکومت کو مزید اقدامات کرنے چاہیں۔ مثلا پورے پنجاب میں صرف ایک فارنسک لیب ہے اور وہ بھی صرف لاہور میں۔ حکومت کو ہر شہر میں ایسی لیب قائم کرنی چاہیے اور ڈی این اے ٹسیسٹ جنسی تشدد کے مقدمات میں فوری طور پر کر کے اس کا فوری نتیجہ متعلقہ اداروں کو دینا چاہیے۔ جن علاقوں میں ایسے واقعات زیادہ ہورہے ہیں وہاں ایسی لیبارٹریز ایک سے زیادہ ہونی چاہیں۔ اس کے علاوہ پولیس و عدلیہ میں خواتین کی بڑی تعداد ہونی چاہیے، جو ایسے مقدمات کو سنیں۔ ملزم اور ظلم کی شکار خواتین کو عدالت میں ایک ساتھ نہیں بلانا چاہیے۔ یہ متاثرہ عورت کے لیے ایک نفسیاتی اذیت کا سبب بنتا ہے۔"

Pakistan Special Report Vergewaltigungen | Polizeistation in Islamabad
اسلام آباد میں قائم ریپ کیسز کے لیے خصوصی رپورٹنگ روم۔تصویر: DW/I. Jabbeen

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کا رویہ ایسے معاملات میں انتہائی تحقیر آمیز ہوتا ہے۔ "کیونکہ ملزمان با اثر شخصیت کی سرپرستی حاصل کر لیتے ہیں اور پولیس ہمارے وڈیروں کے کنڑول میں ہوتی ہے اور تفتیسش کو خراب کرتی ہے۔ عدالت پولیس کی تفتیش پر ہی فیصلہ کرتی ہے۔ اس لیے ایف آئی آر فوراً درج ہونی چاہیے اور تفتیش کے طریقہ کار میں جدت لانی چاہیے۔ متاثرہ خواتین غربت کی ماری ہوتی ہیں۔ اس لیے ان مقدمات کے لیے مفت لیگل ٹیم بھی شہر اور تحصیلوں کی سطح پر ہونی چاہییں۔"

انسانی وقار کے خلاف: پاکستان کے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس سے وابستہ انیس ہارون کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ کار انسانی وقار کے خلاف ہے اور اسکی جنسی تشدد یا زنا بالجبر کے مقدمات میں کوئی ضرورت نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر ایک عورت کہتی ہے کہ اس کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے، تو ہمیں واقعاتی شواہد دیکھنے چاہیں اور ڈی این اے ٹیسٹ کرانا چاہیے۔ لیکن دوانگلیوں والے ٹیسٹ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ اس طریقہ کار پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق میں بھی بحث ہوئی ہے لیکن اس کو ابھی تک ختم نہیں کیا گیا حالانکہ اس کو ختم کرنے پر بہت سارے حلقوں کا اتفاق بھی ہے۔"

دوسرے ٹیسٹ کی طرف جائیں

کچھ ماہرین تولید کا کہنا ہے کہ دنیا میں بہت سارے ٹیسٹ ہیں، جن کے ذریعے بڑی آسانی سے جنسی تشدد یا زنا بالجبر کا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر تولید ڈاکٹر پروین ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،" دو انگلیوں والا ٹیسٹ متاثرہ عورت کے لیے انتہائی ٹراؤمیٹک ہوتا ہے۔ پہلے وہ زنابالجبر کی وجہ سے جسمانی و نفسیاتی ٹرامے سے گزرتی ہے اور پھر اس ٹیسٹ کے ذریعے وہ جسمانی و نفسیاتی ٹراؤما سے ایک بار پھرگزرتی ہے، جو اس کی ذہںی کیفیت کے لیے بہت برا ہے۔ پھر اس ٹیسٹ کی کوئی افادیت بھی نہیں ہے۔ اس سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا خصوصاً اگر کوئی جنسی طور پر سرگرم عورت ہو یا کوئی بچی ہو تو اس ٹسیٹ سے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ہمیں کیمیکل ٹیسٹنگ آف کلاتھ، ویجینل سواب، ریکٹل سواب، ڈی این اے، ہسٹری اور دوسرے طرح کے ٹیسٹوں کی طرف جانا چاہیے۔ اگر پنجاب حکومت نے اس کی ممانعت کی ہے تو یہ بہت اچھا کیا ہے۔ یہ خواتین کے لیے انتہائی تحقیقر آمیز ہے۔"

Pakistan Protest gegen Vergewaltigungsfall auf der Autobahn
موٹر وے ریپ کیس کے خلاف وکلاء اور سول سوسائٹی کا احتجاج۔تصویر: DW/T. Shahzad

 

طریقہ کار کے خلاف پٹیشن

 

پی ایم ایل این کی رکن قومی اسمبلی شائستہ پرویز ملک اور پاکستان کی کئی نامور خواتین نے دو علیحدہ پٹیشنز میں اس طریقہ کار کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے۔ ان پٹیشنز میں کہا گیا ہے کہ یہ طریقہ کار تحقیر آمیز، غیر انسانی اور خواتین کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ تفتیش کے جدید طریقے اپنائیں جائیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاکستان چوہدری اشتیاق احمد خان، جو اس مقدمے میں وفاقی حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "درخواست کنندگان کا مطالبہ ہے کہ اس طریقہ کار کو ختم کیا جائے، جو قانون نہیں ہے بلکہ ایک طریقہ کار ہے اور اس کو قانون میں اس لیے لے لیا گیا کیونکہ یہ اس وقت رائج تھا۔ یہ اب بھی پورے ملک میں ہے لیکن اگر لاہور ہائی کورٹ نے اسے ختم کر دیا تو یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کو پورے ملک میں نافذ کرائے کیونکہ وفاقی حکومت اس مقدمے میں فریق ہے۔"

ان کا مذید کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے پہلے ہی طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے لئے ہدایات دے دی ہیں۔ " پنجاب حکومت نے ڈی این اے، فارنسک اور دوسرے سائنسی شواہد پر انحصار کرنے کی ہدایات متعلقہ اداروں کو  دے دی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین حکومتی اہلکاروں کی تعیناتی کا بھی کہا گیا ہے۔ پٹیشنز پر دلائل ہوچکے ہیں اور فیصلہ بھی جلد آجائے گا۔"

عبدالستار

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں