1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاناما پیپرز‘ منظر عام پر لانے والوں کے لیے پولٹزر پرائز

علی کیفی Reuters
11 اپریل 2017

صحافت کے شعبے کا اہم ترین امریکی اعزاز پولٹزر پرائز اکیس مختلف شعبوں میں دیا جاتا ہے۔ اس بار یہ انعام پانے والوں میں ’پاناما پیپرز‘ منظر عام پر لانے والا صحافتی نیٹ ورک آئی سی آئی جے بھی شامل ہے۔

https://p.dw.com/p/2b1m1
USA Bekanntgabe Pulitzer-Preisträger Hamish Boland-Rudder
ہیمش بولانڈ رَڈر ’آئی سی آئی جے‘ کے آن لائن مدیر ہیں اور سات اپریل 2016ء کی اس تصویر میں واشنگٹن میں اپنے دفتر میں مصروفِ عمل ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo

آئی سی آئی جے نامی بین الاقوامی نیٹ ورک میں دنیا کے چھ براعظموں کے تین سو سے زیادہ صحافی شامل ہیں اور اس نیٹ ورک ہی کی طرف سے جاری ہونے والے ’پاناما پیپرز‘ کی بدولت وہ خفیہ نظام منظرِ عام پر آیا، جس کے تحت دُنیا کی اہم اور طاقتور ترین شخصیات ٹیکس بچانے کے لیے آف شور کمپنیاں بناتی ہیں۔

آئی سی آئی جے کا صدر دفتر واشنگٹن میں ہے۔ ’پاناما پیپرز‘ کو سامنے لانے میں آئی سی آئی جے کے ساتھ ساتھ امریکی میڈیا کمپنی میکلاچی اور اخبار ’میامی ہیرالڈ‘ نے بھی مرکزی کردار ادا کیا اور یہ دونوں بھی پولٹزر پرائز میں حصے دار ہوں گے۔

Gerard Ryle
آئی سی آئی جے کے ڈائریکٹر جیرارڈ رائیلتصویر: Getty Images/AFP/J. Watson

اگرچہ ’پاناما پیپرز‘ کو منظرِ عام پر لانے میں جرمن اخبار ’زُوڈ ڈوئچے‘ کا کردار بھی کلیدی نوعیت کا ہے تاہم پولٹزر پرائز صرف اور صرف امریکی صحافت تک ہی محدود ہوتا ہے۔ پولٹزر پرائز کے منتظم مائیک پرائیڈ نے البتہ کہا کہ بالواسطہ طور پر یہ امریکی انعام اُن سب شخصیات اور اداروں کے بھی حصے میں آیا ہے، جنہوں نے ’پاناما پیپرز‘ کے ذریعے طاقتور شخصیات کے اقتصادی جرائم کو بے نقاب کیا۔

اس سال یہ انعام جریدے ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کو بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخابی مہم کے حوالے سے زور دار رپورٹنگ کے لیے اور جریدے ’دی نیویارک ٹائمز‘ کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینے اور رکھنے کے خفیہ ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے لیے دیا گیا۔ ان دونوں امریکی جرائد کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی گئی کہ نیوز میڈیا کے لیے معاندانہ فضا کے باوجود ان جرائد نے طاقتور شخصیات کے حوالے سے چھان بین کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

پولٹزر پرائز کی تقریبِ تقسیم میں جہاں ایک طرف یہ کہا گیا کہ نیوز میڈیا جمہوریت کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے، وہیں اس امر کی جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ اب ’فیک نیوز‘ یعنی جھوٹ پر مبنی خبریں اس میڈیا کے لیے ایک چیلنج بھی بننے لگی ہیں۔ پہلے پہل ’فیک نیوز‘ سے وہ ’گھڑی گئی‘ کہانیاں مراد لی جاتی رہیں، جو  امریکی انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کی جاتی رہیں جبکہ اب امریکی صدر ٹرمپ اسی اصطلاح کو اُس ناقدانہ رپورٹنگ کو رَد کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جو حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔ اپنے ایک بیان میں تو ٹرمپ امریکی نیوز میڈیا کو ’امریکی عوام کا دشمن‘ بھی قرار دے چکے ہیں۔

USA New York Bekanntgabe Pulitzer-Preisträger Mike Pride 2016
پولٹزر پرائز کے منتظم مائیک پرائیڈ اس سال کے انعامات کا اعلان کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/J. Samad

اخبار شائع کرنے والے ایک امریکی پبلشر جوزف پولٹزر سے موسوم پولٹزر پرائز 1917ء سے دیا جا رہا ہے اور زیادہ تر ’واشنگٹن پوسٹ‘، ’نیویارک ٹائمز‘ اور ’دی وال اسٹریٹ جرنل‘ جیسے نامور جریدوں ہی کے حصے میں آتا ہے۔ ساتھ ساتھ لیکن اس انعام سے اُن امریکی جرائد کو بھی نوازا جاتا ہے، جو کم معروف ہوتے ہیں۔

اس سال یہ اعزازات ایک سو ایک ویں مرتبہ دیے گئے۔ یہ انعام صحافت کے ساتھ ساتھ شاعری اور ادب کے شعبوں میں بھی دیا جاتا ہے۔

پولٹزر پرائز کا اُنیس رُکنی بورڈ ماضی میں یہ انعام جیتنے والی شخصیات کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافیوں اور دانشوروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بار اس بورڈ نے مختلف انعامات کا فیصلہ ایک سو دو ججوں کی مدد سے کیا۔ ان انعامات کے لیے مجموعی طور پر ڈھائی ہزار سے زیادہ مضامین، جرائد اور کتابیں موصول ہوئی تھیں۔